حب ( نامہ نگار ) جبری گمشدگی کے شکار بلوچ لڑکی نسرین بلوچ کی والدہ نے کہا ہے کہ وردی اور سول لباس میں ملبوس مسلح اہلکار نسرین بلوچ کو اٹھا لے گئے لیکن پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا۔
بلوچستان کے علاقے حب چوکی سے سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والی 15 سالہ بلوچ خاتون نسرین بلوچ کے والدہ نے رشتہ داروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ 22 نومبر 2025 کو رات تقریباً 12 بجے سیکیورٹی فورس سے تعلق رکھنے والے 15 مسلح اہلکار زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوئے۔
ان کا. کہنا تھا کہ ان میں سے پانچ مبینہ طور پر فرنٹیئر کور (ایف سی) کی وردی میں ملبوس تھے جبکہ باقی افراد سول لباس میں تھے، ان کے ہمراہ ایک عورت بھی تھی۔
جبری طور پر لاپتہ کی گئی نسرین بلوچ کے اہلخانہ نے بتایا کہ ان افراد نے گھر میں توڑ پھوڑ کی، گھریلو سامان بکھیر دیا اور اہلِ خانہ کو ایک کمرے میں بند کر دیا، اس دوران وہ ان کی 15 سالہ بیٹی نسرین بلوچ کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے، جس کے بعد سے تاحال اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید تھی کہ ان کی بیٹی جلد بازیاب ہوکر گھر واپس آ جائے گی، مگر 27 دن گزرنے کے باوجود نسرین بلوچ کی بازیابی عمل میں نہیں آ سکی۔
انہوں نے کہاکہ نسرین کی. جبری گمشدگی کے واقعے کے فوراً بعد متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر کے اندراج کے لیے تحریری درخواست دی، تاہم پولیس نے تاحال ان کی درخواست وصول یا درج نہیں کی، جس کے باعث ہم شدید ذہنی اذیت اور بے بسی کا شکار ہیں۔
اہلخانہ نے کہا کہ تمام قانونی دروازے کھٹکھٹانے کے باوجود وہ مجبوراً اور بے بسی کے عالم میں میڈیا کے ذریعے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔
نسرین بلوچ کے اہلخانہ نے حکام اور ریاستی اداروں سے اپیل کی ہے کہ نسرین بلوچ کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے، اور اگر اس پر کسی جرم کا الزام ہے تو آئین و قانون کے مطابق عدالت میں پیش کر کے شفاف اور منصفانہ تحقیقات کی جائیں۔
ان کی والدہ نے کہا کہ بیٹی کی جبری گمشدگی کے باعث وہ شدید ذہنی کرب میں مبتلا ہیں اور ریاستی اداروں سے انسانی ہمدردی اور قانون کے مطابق انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ میڈیا کے ذریعے ان کی آواز متعلقہ حکام تک ضرور پہنچے گی، اور بلوچ قوم سمیت تمام اقوام سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپیل کی کہ نسرین بلوچ کی بحفاظت بازیابی کے لیے آواز بلند کی جائے۔
