جبری گمشدگیوں کے بعد ٹارگٹ کلنگ — ایک سوچی سمجھی ریاستی پالیسی - تحریر کامریڈ وسیم سفر

 


بلوچستان میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کو بازیابی کے بعد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانا ایک منظم اور سوچی سمجھی ریاستی پالیسی کے تحت جاری ہے۔ یہ عمل اس لئے اپنایا جا رہا ہے کیونکہ ہزاروں افراد کی جبری گمشدگیاں، دورانِ حراست ماورائے عدالت قتل، اور جعلی مقابلے ریاست اور اس کے اداروں کے کردار کو دنیا بھر میں مشکوک بنا چکے ہیں۔

ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بلوچستان میں عدالتوں کو بائی پاس کر کے افراد کو اغواء کیا جا رہا ہے، ان پر جھوٹے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں یا پھر جعلی انکاؤنٹرز میں شہید کیا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کی جانب سے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کے باعث عدل و انصاف کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لوگ جبری طور پر لاپتہ کیے جاتے ہیں، ان کے اہلِ خانہ سراپا احتجاج بن جاتے ہیں، اور انسانی حقوق کے کارکنان اس غیر انسانی عمل کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ جب عالمی سطح پر یہ مقدمات نمایاں ہوتے ہیں، اور بین الاقوامی ادارے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے آگاہ ہوتے ہیں، تو ان افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ ان کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے۔

یہ حکمتِ عملی نہ صرف انفرادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک خطرناک ریاستی کھیل کا حصہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بازیاب شدہ افراد خوف و ہراس میں مبتلا ہو کر یا تو خاموشی اختیار کر لیں یا پہاڑوں کا رخ کر کے عسکریت پسند تنظیموں میں شامل ہو جائیں، تاکہ بعد میں انہیں کسی آپریشن یا جھوٹے انکاؤنٹر میں مار کر ریاستی بیانیے کو تقویت دی جا سکے۔

ریاستی میڈیا اور نام نہاد "تجزیہ کار" فوری طور پر یہ پراپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ افراد عسکریت پسند تھے اور ریاست کے خلاف کام کر رہے تھے۔ اس طرح عالمی برادری کی توجہ جبری گمشدگی جیسے سنگین انسانی مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس پورے معاملے کو مشکوک بنا دیا جاتا ہے۔

عدیل اقبال کی شہادت — ایک پالیسی کا تسلسل

گوادر میں لیویز اہلکار زکریا، امتیاز اقبال، اور عابد وشدل کا معجزاتی طور پر زخمی ہونا اور آج عدیل اقبال کی بے دردی سے شہادت اس پالیسی کی ہی ایک کڑی ہے۔ ریاست اپنے جرائم اور ناانصافیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مسلسل ایسے "خطرناک کھیل" کھیل رہی ہے تاکہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے مقدمات کو دنیا بھر میں مشکوک قرار دلوا سکے۔

توتک میں اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ ملتان کے نشتر ہسپتال کی چھت سے 500 سے زائد انسانی باقیات ملی تھیں جن پر آج تک کوئی شفاف تحقیقات نہیں ہو سکیں۔ یہ واقعات خود اس پالیسی کے ثبوت ہیں کہ ریاستی ادارے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔

فیک انکاؤنٹرز — ثبوت اور تضادات

ہر بار جب کوئی مسلح تصادم ہوتا ہے، ریاستی ادارے اور عسکریت پسند تنظیمیں ایک دوسرے سے متضاد دعوے کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، فروری 2024 کے بولان واقعے میں عسکری تنظیم نے 13 ارکان کے مارے جانے کی تصدیق کی، لیکن کوئٹہ کے سول ہسپتال میں 19 لاشیں لائی گئیں جن میں سے 6 افراد جبری لاپتہ تھے اور ان کا ریکارڈ انسانی حقوق کی تنظیموں کے پاس موجود تھا۔

اسی طرح جعفر ایکسپریس واقعے میں عسکریت پسند تنظیم نے 13 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی، مگر ہسپتال میں 36 لاشیں لائی گئیں۔ لواحقین جب لاشیں دیکھنے گئے تو انہیں انکار کر دیا گیا۔ ان واقعات سے اندازہ نہیں بلکہ تصدیق ہوتی ہے کہ جبری لاپتہ افراد کو بعد میں فیک انکاؤنٹرز میں شہید کر دیا جاتا ہے۔

بالاچ مولا بخش کیس — ایک دستاویزی ثبوت

29 اکتوبر 2023 کو تربت کے علاقے ابسر سے بالاچ مولا بخش کو گرفتار کر کے لاپتہ کیا گیا۔ بعد ازاں جعلی مقدمہ بنا کر گرفتاری ظاہر کی گئی اور 20 نومبر کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے سی ٹی ڈی کو 10 روزہ ریمانڈ دیا۔ لیکن 23 نومبر کو سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک مقابلے میں مارا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص ریاستی حراست میں تھا، وہ کیسے کسی مقابلے میں مارا جا سکتا ہے؟

نتیجہ

بلوچستان میں جبری گمشدگی اور اس کے بعد ٹارگٹ کلنگ کا یہ عمل ریاستی پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی ضمیر اور انصاف کے نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ عالمی برادری کو اس حقیقت کا ادراک ہے اور بلوچستان کے مظلوم عوام کی آواز کو مزید دبانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔


Post a Comment

Previous Post Next Post