ڈاکٹر مہرنگ کی 3 ماہ کی ایم پی او مدت ختم — کوئی نظرثانی، کوئی اطلاع نہیں ۔نادیہ بلوچ



شال

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، بیبارگ بلوچ، اور بیبوں بلوچ کو 22 مارچ 2025 کو پبلک آرڈر آرڈیننس (MPO) کی دفعہ 3 کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ 22 جون تک ان کی گرفتاری اور مسلسل حراست کو تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، جو کہ آئین پاکستان کے مطابق اس وقت تک قانونی نہیں جب تک مخصوص قانونی تقاضے پورے نہ کیے جائیں۔ اس دوران گلزادی بلوچ اور سبغت اللہ کی اسی MPO حکم کے تحت تیسری ماہ کی حراست جاری ہے۔


آئین پاکستان کے آرٹیکل 10(4) کے تحت: "…ایسا کوئی قانون کسی شخص کی حراست کی اجازت [تین ماہ] سے زیادہ مدت تک نہیں دے سکتا، جب تک کہ موزوں ریویو بورڈ اس کو ذاتی طور پر سنے بغیر اس کا جائزہ لے کر یہ رپورٹ نہ دے دے کہ، اس کی رائے میں، ایسی حراست کے لیے معقول وجہ موجود ہے۔"


نہ تو کوئی ریویو بورڈ تشکیل دیا گیا ہے، نہ کوئی سماعت دی گئی ہے، اور نہ ہی آرٹیکل 10(4) کے تحت کوئی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ لہٰذا، ان کی مسلسل حراست غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔


آج جب زیر حراست افراد کے اہلِ خانہ نے ہُڈا جیل کے سپرنٹنڈنٹ سے دریافت کیا کہ ان افراد کو کس قانون کے تحت اب تک رکھا گیا ہے، جبکہ ایم پی او کے تحت کوئی نیا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ حراست میں 15 دن کی توسیع کی گئی ہے۔ لیکن اس حوالے سے نہ تو کوئی تحریری حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی قیدیوں یا ان کے وکلاء کو کوئی باضابطہ اطلاع دی گئی ہے۔


سپرنٹنڈنٹ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کے بیانات میں تضاد ہے — کبھی 15 دن کی توسیع کا دعویٰ، تو کبھی یہ وعدہ کہ "آج یا کل" نوٹیفکیشن فراہم کیا جائے گا۔ اب تک ایسا کوئی دستاویز دکھایا نہیں گیا، کیونکہ غالباً وہ موجود ہی نہیں۔


ان کی حراست شروع سے ہی غیر قانونی، قانونی خامیوں سے بھرپور، من مانی نوعیت کی، اور کسی جائز بنیاد سے خالی تھی۔ اب، جب انہیں تین ماہ کی آئینی حد کے بعد بغیر ریویو بورڈ کی منظوری کے قید میں رکھا جا رہا ہے، تو یہ غیر قانونی اقدام مزید سنگین ہو جاتا ہے اور بنیادی قانونی عمل کی آخری جھلک بھی ختم ہو جاتی ہے۔


یہ صرف قانونی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے، بلکہ آئین کی کھلی اور مسلسل توہین ہے — وہی آئین جس کا حوالہ دے کر عوام سے اطاعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے، مگر جب وہی آئین ریاستی بے لگامی کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، تو اسے بے دردی سے روندا جاتا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post