بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے ریاست کے ناکام الیکشن حوالے جاری بیان میں کہا ہےکہ بلوچستان میں ریاست کے نام نہاد انتخابات سے عوام نے بائیکاٹ کرتے ہوئے ریاستی نظام پر اپنی مکمل بے اعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے قابض قوت پر واضح کر دیا ہے کہ بلوچ قوم اس ریاست کے نظام پر کسی بھی طرح کا اعتماد نہیں رکھتا،
جبکہ عوام نے جس جوش اور جذبے کا اظہار کرتے ہوئے متعدد الیکشن آفس کو نذر آتش اور احتجاج کے ذریعے الیکشن کے عمل کو روک کر ریاست پر واضح کر دیا کہ بلوچ قوم اپنی آزادی اور خودمختیاری پر یقین رکھتی ہے۔ نا کہ کسی نام نہاد سیاسی جماعت یا پارلیمانی نمائندے پر جن کے ہاتھ کسی نہ کسی طرح بلوچ نسل کشی میں ملوث ہیں۔ عوام کی ایسی ردعمل دیکھ کر پارلیمانی جماعتوں کو غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن کے عمل سے دستبرداری کا اعلان کرنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایف سی اور فوج کی مدد سے دھاندلی کرتے ہوئے ٹھپہ بازی کا سہارہ لیکر جیتنے کی کوشش کی ہے جو ایک طرف اس ریاست کی نام نہاد جمہوریت کے کھوکھلے پن کو واضح کرتی ہے جبکہ دوسری جانب دنیا کو بلوچستان میں ووٹ کے ٹرن آؤٹ کے حوالے سے ایک غلط بیانیہ دینے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کہا ہےکہ ہوشاپ سے لیکر کیچ تک جہاں اکثریت بلکہ 90 فیصد پولنگ اسٹیشن لگائے ہی نہیں گئے وہاں قابض کے ایک آلہ کار کو ٹھپہ بازی سے 30 ہزار سے زائد ووٹ ملے ہیں اسی طرح مند، دشت اور دیگر کئی علاقوں میں پولنگ اسٹیشن لگے ہی نہیں بلکہ عوام نے مزاحمت دیکھاتے ہوئے ان پولنگ اسٹیشن کو اکھاڑ دیا جس کا اقرار یہی نام نہاد امیدوار کر رہے ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں بلوچستان بھر میں ریاستی ظلم و جبر اور نسل کشی جاری ہے وہاں الیکشن ایک ڈھونگ اور دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ مکران بھر میں ووٹ ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے بھی کم رہا ہے جبکہ جھالاوان سمیت دیگر بلوچ علاقوں میں بھی عوام نے ووٹ کے عمل سے مکمل خود کو دور رکھا لیکن اب ٹھپہ بازی اور غلط نمبرنگ کے ذریعے بلوچستان میں قابض کے آلہ کاروں کیلئے ووٹ کاسٹ کرکے ٹرن آؤٹ کو بڑھایا جا رہا ہے۔
عالمی میڈیا کا رویہ بلوچستان کے حوالے سے ہمیشہ مایوس کن رہا ہے جس طرح بلوچ قوم نے ان نام نہاد الیکشن کا سیاسی بائیکاٹ کیا وہ تاریخی ہے لیکن اس سیاسی عمل پر میڈیا کی خاموشی بلوچستان مسئلے کو نظر انداز کرنے کی کوشش ہے۔ بلوچ قوم نے ریاستی تشدد دباؤ کے باوجود ریاست کے انتخابات سے دور رہ کر بلوچ جہدکاروں کے مورال بڑھا دیے ہیں کہ بلوچ قوم قابض کے اس نظام پر کسی بھی طرح کی اعتماد نہیں رکھتی بلکہ اپنی آزادی چاہتی ہے۔ ریاستی تشدد اور دباؤ کسی بھی طرح عوام کے حوصلے کو شکست نہیں دے سکتے۔ عالمی میڈیا اور انٹرنیشنل قوتوں کو بلوچستان کے اس عوامی رائے کا جائزہ لیتے ہوئے بلوچستان کے حالات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں قابض ریاست ضرور زبردستی اور بندوق کے نوک پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
ترجمان نے آخر میں بلوچ قوم کی ہمت بہادری اور اس اعتماد کے اظہار پر کہا کہ بلوچ قوم کو یقین دلاتے ہیں وہ دن دور نہیں جب اس عوامی مزاحمت سے خوفزدہ ہوکر ریاست بلوچستان میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے بلوچستان کی آزاد حیثیت قبول کرے گی۔ ریاست کے اس طرح کے نام نہاد الیکشن کا بائیکاٹ کرکے قوم نے بلوچ قومی آزادی کے حق میں اپنی حق رائے دہی کا بھرپور استعمال کیا ہے۔