گذشتہ اتوار بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں مسافرکوچ کے المناک حادثے میں قدرت اللہ نے اپنی والدہ، اکلوتی بہن اور دو بھائیوں سمیت خاندان کے چار افراد کو ہمیشہ لے کیے کھو دیا ہے۔ مگر ان کے دو بھائی اس حادثے میں بچ گئے۔
حادثے کا شکار ہونے والی مسافر کوچ بلوچستان کے ضلع پشین سے کراچی کے لیے روانہ ہوئی تھی اور اس میں شال سے بھی مسافر سوار تھے۔
قدرت اللہ کے ’معجزانہ طور پر‘ بچ جانے والے دو بھائیوں میں سے آیت اللہ کی عمر ڈھائی سال اور دوسرے بھائی وحید اللہ کی عمر 15 سال ہے۔
ضلع لسبیلہ میں حادثے سے دوچار ہونے والے اس کوچ میں خواتین اور بچوں سمیت 41 افراد ہلاک ہوئے تھے ، جن میں اکثریت کی نعشیں کوچ میں آگ بھڑک اٹھنے سے ناقابل شناخت ہوگئی تھیں ۔
قدرت اللہ کے مطابق وحید اللہ خود کسی طرح بس سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے، لیکن چھوٹے بھائی کو ’والدہ نے اپنی موت سے پہلے بس کی ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے باہر پھینک دی تھی۔‘
وحید اللہ نے بتایا کہ ’میں نے والدہ، بہن اور بھائیوں سمیت دیگر مسافروں کو بچانے کے لیے گاڑیوں کو روک کر لوگوں کو بلایا مگر خوفناک آگ کے باعث دو، تین افراد کے سوا میرے چار رشتہ داروں سمیت مسافروں کی اکثریت کو نہیں بچایا جاسکا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حادثے سے قبل ’والدہ نے کہا تھا ڈرائیور کو بتائیں گاڑی کی رفتار بہت زیادہ ہے، اسے کم کریں کیونکہ یہاں بچے بھی ہیں۔‘
’اکلوتی بہن پہلی بار شال سے باہر کسی شہر کے لیے نکلی تھیں‘
قدرت اللہ نے افسردہ ہو کر بتایا کہ ان کی خالہ کا گھر کراچی میں ہے ، اور وہاں موجود نانی بیمار تھیں۔ ان کی والدہ اپنی ماں کی علالت اور اپنا چیک اپ کرانے کے لیے کراچی جا رہی تھیں۔
انھوں نے کہاکہ پہلے جب بھی والدہ باہر جاتی تھیں تو وہ والد کے ساتھ جاتی تھیں ۔ لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ وہ بہن اور چار بھائیوں کے ہمراہ کراچی جا رہی تھیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اکلوتی بہن کے علاوہ والدہ کے ہمراہ جو چار بھائی جا رہے تھے ان میں وحیداللہ اور آیت اللہ کے علاوہ ہلاک ہونے والے 18سالہ بھائی فریداللہ اور سات سالہ نمعت اللہ شامل تھے۔ فریداللہ سائنس کالج شال میں فرسٹ ایئر پری میڈیکل کا طالب علم تھا، جبکہ نعمت اللہ پرائمری کلاسوں میں تھا۔‘
قدرت اللہ نے بتایا کہ مسافر کوچ کے حادثے میں ہلاک ہونے والی بہن ’ہم آٹھ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں اور انھوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بہن اکلوتی تھیں اس لیے گھر میں لوگ ان سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ ’ہم بھائیوں سے بھی بہت زیادہ پیار کرتی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری بہن پہلے کبھی کسی اور شہر کے لیے نہیں نکلی تھی اور یہ پہلا موقع تھا کہ وہ شال سے کراچی کے لیے باہر نکلیں۔ لیکن بہن گھر سے ایسی باہر نکلیں کہ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئیں۔
فرید اللہ اور نعمت اللہ خاندان کے ان چار افراد میں شامل ہیں جنھیں قدرت اللہ نے لسبیلہ بس حادثے میں کھو دیا ہے۔
قدرت اللہ نے بتایا کہ ان کے بچ جانے والے دو بھائیوں میں وحیداللہ آٹھویں کلاس کا طالب علم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وحیداللہ نے ہمیں بتایا کہ کھائی میں گرنے کے بعد بس میں بالکل اندھیرا چھا گیا تھا۔ انھیں وہاں ایک سوراخ سے آسمان پر ایک ستارہ نظر آیا اور وہ اس سوراخ سے باہر نکل گیا۔‘
اس موقع پر وحیداللہ کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ اس خوفناک منظر میں ان کا حوصلہ کیسے برقرار رہا۔
’مجھے بس کے انجن کے قریب ہوا کے پائپوں کے ساتھ ایک سوراخ نظر آیا جہاں سے میں باہر نکلنے میں کامیاب ہوا۔بس سے نکلنے کے بعد میں نے دیکھا کہ میرا چھوٹا بھائی آیت اللہ بھی بس کے باہر پڑا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چھوٹے بھائی کو اٹھا کر میں پل کی جانب بھاگا تاکہ روڈ پر گاڑیوں کو مدد کے لیے روک سکوں۔‘
’اپنی جانب سے چھوٹی کوشش کی لیکن والدہ اور دوسروں کو نہیں بچاسکا۔‘
وحید اللہ نے بتایا کہ ’بس کے کھائی میں گرنے کے بعد میں جو کچھ کرسکتا تھا وہ صرف یہ تھا کہ روڈ سے گزرنے والی گاڑیوں کو روک کر لوگوں سے مدد کی درخواست کروں۔‘
انھوں نے گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ صرف ’ایک بس والا رُک گیا۔‘
جب انھوں نے بس کے ڈرائیور کو پل کے نیچے حادثے اور بس میں لگنے والی آگ کے بارے میں بتایا تو انھوں نے دوسروں گاڑیوں کو بھی روک لیا۔
’لوگ حادثے کا شکار ہونے والی بس کے قریب پہنچے تو وہ ایک عورت اور ایک بچے کے علاوہ ایک دو آدمیوں کو نکال سکے، لیکن آگ تیز ہونے کے باعث باقی کسی کو نہیں نکالا جاسکا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میں نے دیکھا کہ میری امی کے ہاتھ، سر اور کندھا مسافر کوچ کی کھڑکی سے باہر لٹکے ہوئے تھے۔‘
وحید اللہ نے اس موقع پر جو ویڈیو بنائی اس میں ان کے رونے اور چیخنے کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے اور وہ یہ کہہ رہا ہے کہ ’یا اللہ ماں، بہن اور بھائیوں کو بچا لے۔‘
انھوں نے یہ ویڈیو اپنے والد کو آگاہ کرنے کے لیے بنائی ’لیکن وہاں ان کا نیٹ ورک کام نہیں کر رہا تھا۔‘
تو انھوں نے وہاں جمع لوگوں میں سے ایک شخص سے موبائل فون لے کر والد کو صورتحال سے آگاہ کیا۔
دریں اثناء بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے مقام بیلہ میں بس حادثے کے بعد کراچی منتقل کی جانیوالی 38 لاشوں کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے ہوگئی ۔
انچارج سی پی ایل سی شناخت پروجیکٹ نے میڈیا کو بتایا کہ تمام نعشوں کی ڈی این اے کے ذریعے شناخت اور قانونی کارروائی کے بعد انہیں ورثاء کے حوالے کردیا گیا ہے۔
لواحقین نے اس موقع پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ تین دن تک ایدھی سرد خانے کے باہر بیٹھے رہے ، لیکن کسی نے کھانے پینے کو کچھ نہیں پوچھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے کے ایم پی اے، ایم این اے نے ہماری بالکل مدد نہیں کی، مسافر بسوں سے اسمگلنگ ختم کرائی جائے۔
لواحقین کا کہنا تھا کہ ھلاک ہونے والے افراد کے ورثاء کے لیے حکومت امداد کا اعلان کرے۔
ھلاک ہونے والوں میں 30 کا تعلق پشین سے ہے ، جبکہ 7 خواتین 5 بچے بھی شامل ہیں۔