پاکستان
کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جبری گمشدگیوں کے واقعات میں فوج کا کوئی اہلکار ملوث ہے تو اس کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ کہ ’جب سکیورٹی اداروں پر اس طرح کے الزامات لگتے ہیں تو اس سے ملکی سلامتی پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔
‘ انھوں نے کہا کہ مسلح افواج پر اس طرح کی کارروائیوں میں شامل ہونے کا الزام بھی کیوں لگے کیونکہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا نام لیے بغیر کہا کہ جب چیف ایگزیکٹو نے اپنی کتاب میں لکھ دیا کہ یہ ریاست کی پالیسی تھی اور اس چیف ایگزیکٹو نے نو سال تک ملک پر حکومت کی تھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مدثر نارو کے واقعے سے متعلق ملک کی سب سے معتبر خفیہ ایجنسی کا کہنا ہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے لیکن اس کے باوجود منتخب حکومتیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہیں۔
انھوں نے کہا کہ جس طرح جبری گمشدگیوں کے بارے میں منتخب حکومتوں کا ردعمل ہونا چاہیے تھا، ویسا نہیں ہے۔
سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وہ عدالت میں ثبوت پیش کریں گے کہ ریاست کی ایجنسیاں جبری گمشدگی میں ملوث ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے سنہ 2019 میں کہا تھا کہ تمام نہیں لیکن کچھ لاپتہ افراد ہمارے پاس ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے یہ بھی کہا کہ حکام کا کہنا تھا کہ ہم نے جی ایچ کیو میں ایک سیل بنایا ہے اور ان افراد کو اس میں رکھا گیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سے استفسار کیا کہ اس پر منتخب حکومت اور پارلیمان نے کیا کیا؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فرحت اللہ بابر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ ان اداروں پر سویلین کنٹرول اور نگرانی نہیں۔
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی صرف حکومت کا ایک محکمہ ہے اور آئی ایس آئی وزیراعظم کے براہ راست کنٹرول میں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت پبلک آفس ہولڈرز کو اپنی ذمہ داری شفٹ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
انھوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم کسی بات سے منع کرے تو وہ اسے ماننے کے پابند ہیں اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی کارروائی ہونی چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کو بازیاب کروانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جن اداروں میں لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، اس دور کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے عدالت کو بتایا کہ کیبنٹ ڈویژن ان عدالتی احکامات پر عمل درآمد کر رہی ہے جس میں عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف سے لے کر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تک کے چیف ایگزیکٹو صاحبان سے اس حوالے سے بیان حلفی طلب کیا ہوا ہے۔
فرحت اللہ بابر نے عدالت سے استدعا کی کہ وزیراعظم کو سمن کریں اور انھیں کہیں کہ عدالت کے سامنے وضاحت کریں۔
انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کو بلانے کے علاوہ کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔
جبری گمشدگیوں کے بارے میں کام کرنے والی سماجی کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کو بلا کر ان کیمرا سماعت کریں۔
انھوں نے کہا کہ ’جن افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، ان کے عزیزوں کو بتائیں کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا نہیں۔‘
آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ان کے شوہر زندہ ہیں تو وہ کہاں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بے شک اس معاملے کی ان کیمرا سماعت کریں اور ذمہ داروں کو بھی بلائیں۔
فرحت اللہ بابر کا عدالت میں کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کے پہلے کمیشن کی رپورٹ بھی شائع ہو جائے تو بڑی بات ہے، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ انھیں پتا ہی نہیں کہ وہ رپورٹ ہے بھی یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ آٹھ ہزار یا جتنے بھی لاپتہ لوگ ہیں ان کی بازیابی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سویلین کنٹرول کو مضبوط کس طرح کیا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے وہ عدالت سے استدعا کر رہے ہیں کہ وزیراعظم کو طلب کریں بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی۔
انھوں نے کہا کہ وزیراعظم پیش ہو کر بتائیں کہ ان کی کیا مجبوریاں ہیں۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ بے شک یہ سماعت ان کیمرا رکھ لیں لیکن وزیراعظم کو بلائیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کیمرا کیوں؟ اگر بلانا ہے تو جو وہ کہتے ہیں لوگوں کو بھی پتا چلنا چاہیے۔
عدالت نے وزارت داخلہ کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جبری گمشدگیوں پر عملی اقدامات کیے جائیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر عدالت نو ستمبر کو وزیر اعظم کو بھی طلب کر سکتی ہے