بارش اور مشکلات کے باوجود بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج جاری ہمارے بیٹوں کو عدالت میں پیش کیا جائے، اہل خانہ کی اپیل

 


کراچی ( نامہ نگار ) کراچی  میں گزشتہ روز سے بارش کا سلسلہ جاری ہے جس نے شہری زندگی کو متاثر کیا ہے، مگر اس موسم کی سختیوں کے باوجود بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف لگایا گیا احتجاجی کیمپ منگل کو اپنے 37 ویں روز میں داخل ہوگیا ہے۔ لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مسلسل سراپا احتجاج ہیں اور ان کی فریاد ہے کہ اگر ان کے بیٹوں پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

اس موقع پر لاپتہ نوجوان زاہد علی بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا ایک بے قصور اور بے ضرر نوجوان ہے جو اپنی فیملی کا سہارا بنا ہوا تھا، لیکن آج وہ ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر زاہد پر کوئی الزام ہے تو آئین و قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، نہ کہ ماورائے آئین اور خفیہ طریقوں سے۔ انہوں نے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر شہریوں کو سزا دے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق کراچی کے مختلف علاقوں سے درجنوں بلوچ نوجوان جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ہیں۔ ان میں ماری پور اور لال بکھر ہاکس بے کے رہائشی شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔ یہ تمام نوجوان عام گھریلو پس منظر رکھتے ہیں اور ان کی گمشدگی نے ان کے اہل خانہ کو شدید ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ بارش، دھوپ یا کوئی بھی رکاوٹ ان کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ ان کا واحد مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو بحفاظت واپس لایا جائے یا اگر ان پر کوئی الزام ہے تو شفاف عدالتی عمل کے ذریعے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post