کوئٹہ ( ویب ڈیسک ) نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں برسوں سے ایک خطرناک روایت جنم لے چکی ہے جہاں سیاسی کارکنوں، طلبہ رہنماؤں، ادیبوں اور صحافیوں کو محض اختلافِ رائے کی بنیاد پر غائب کیا جاتا ہے، مقدمات میں الجھایا جاتا ہے، یا دہشتگردی کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ یہ ایک خاموش نسل کشی ہے جو سیاسی میدان کو بانجھ بنانے کی کوشش کے مترادف ہے۔ ریاست اگر انصاف کی راہ پر گامزن نہیں ہوتی تووہ اپنی قانونی و اخلاقی حیثیت کھو بیٹھتی ہے۔
ترجمان نے کہاکہ آج ایک جانب سیشن کورٹ خضدار میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کے مرکزی رہنما غنی بلوچ کی تیسری پیشی تھی جس میں واضح ہوا کہ پولیس دانستہ طور پر تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے، جس کے باعث وہ ملزمان کے خلاف رپورٹ جمع کرانے میں ناکام ہوئے۔ عدالتی احکامات کے باوجود پولیس کی جانب سے واقعے کی نوعیت اور ملزمان کی نشاندہی کے حوالے سے جواب جمع نہیں کیا جا رہا بلکہ مسلسل حیلے بہانے کیے جا رہے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ تفتیش کے عمل میں شفافیت، غیرجانبداری اور قانونی میرٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے بھی جب غنی بلوچ کو 25 مئی 2025 کو خضدار سے قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر قانونی طور پر اٹھا کر نا معلوم مقام میں منتقل کرتے ہیں تو پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے انکاری ہوتا ہے- جب خاندان والوں نے پارٹی کے ہمراہ عدالت کا رجوع کیا، تو عدالتی احکامات کے باوجود ادارے رپورٹ کے حوالے سے تاخیر کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس سے ان کی غیر سنجیدگی کا ادارک ہوتا ہے- غنی بلوچ جیسے کارکن اس معاشرے میں شعور کا نمائندہ ہیں، ان کی ماروائے آئین جبری گمشدگی محض ایک شخص کو قید نہیں بلکہ عوامی شعور اور بیداری کو دبانے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کہاکہ مزید برآں، تین مہینے سے زائد عرصے تک 3 ایم پی اوکے تحت گرفتار افراد کو اب انسداد دہشت گردی عدالت کے ذریعے دیگر بے بنیاد الزامات میں ملوث کر کے عدالت میں پیش کیا گیا اور ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا۔ یہ اقدامات نہ صرف انصاف کے تقاضوں کے منافی ہیں بلکہ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر انتقام اور ریاستی وکٹیمائزیشن کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاستی اداروں کی جانب سے سیاسی جدوجہد کے تمام راستوں کو بند کر دیا گیا ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے سیاسی کارکنوں کے لیے بلوچستان میں انسانی بنیادی حقوق سلب کیے جا چکے ہیں، پر امن سیاسی کارکنان کو دہشتگردوں کی صف میں کھڑا کرنا ریاستی بدنیتی کو بے نقاب کرتا ہے۔ ایسے تمام اقدامات اظہار رائے کی آزادی، پُرامن احتجاج، اور اختلافِ رائے کے بنیادی حقوق پر حملہ تصور ہوں گے۔