بلوچ سرگرم سماجی سیاسی کارکن نعیمہ زہری نے سوشل میڈیا ایکس پر جاری بیان میں کہاہے ہے
یوکے، نیدرلینڈز اور جرمنی میں ہر دو مینے بعد بلوچ اکھٹے ہو کر بلوچستان میں ہونے والی جبر اور بربریت کے خلاف آواز اٹھا کر احتجاج کرتے ہیں۔ مگر امریکہ میں ڈاکڑ ماہ رنگ بلوچ اور باقی لاپتہ افراد کیلیے امریکی بلوچوں نے آواز نہیں اٹھایا۔
انھوں نے کہاہے کہ اکیس جون کو امریکہ میں ایک دو نامی گرامی نے بلوچ گیدرنگ کے نام پر من پسند لوگ جنکے جیب بھرے ہوئے ہو انکو انویٹیشن بیجھا ایک سو کالڈ گیدرنگ کے نام پر پروگرام کیا یوٹیوب پر کچھ ویوز اور پروگرام کے لوکیشن کے دوکانداری کے خاطر بیٹھ کر فیملیز کو بولایا گیا اکھٹے ہوئے ناچ گانا سمت کھانا کھایا اور اپنے گھروں کو رخ کیا ۔ مگر بھول گئے کہ بلوچستان کے بیٹیاں جیل میں قید ہے تب انکو اکھٹے ہونے کا خیال تک نہیں آیا آج پیٹ پوجا اور دکان کی دکانداری اور یوٹیوب کی ویوز کےلیے من پسند لوگوں کو دعوت دیں کر اکھٹے ہوکر بلوچیت کو زندہ رکھا ۔۔
نعیمہ نے کہاہے کہ بلوچیت کا نام لیا گیا، مگر اس کے ساتھ کھانا، ناچ، گانا، اور تصویریں۔ وہ بھی مخصوص زاویوں سے، تاکہ سوشل میڈیا پر “ہم زندہ ہیں” کا تاثر دیا جا سکے۔ کیا یہ بلوچیت ہے؟ کیا بلوچیت صرف پیٹ پوجا، دعوت نامے اور سکرین پر آنے تک محدود ہو گئی ہے؟
انھوں نے کہاہے کہ جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو اٹھایا گیا، جب ہزاروں مائیں اپنے بچوں کی تصویریں لے کر دربدر ہوئیں، تب تو یہی لوگ خاموش تھے، غائب تھے، مصروف تھے۔ اور آج؟ آج یہی لوگ بلوچیت کے علمبردار بن بیٹھے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے بلوچ درد کو یوٹیوب چینل کا content اور گیدرنگ کا business بنا لیا ہے۔
بلوچیت زندہ ہے—مگر صرف کیمروں میں، صرف مینیو میں، صرف ان لوگوں کی زبانی جنہیں بلوچستان کا سچ سننے سے زیادہ اپنی تصویر دکھانے کا شوق ہے۔