بلوچ مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی سخت ضرورت ہے ۔کامریڈ وسیم سفر

 


کوئٹہ ( پریس ریلیز ) انسانی حقوق کے سرگرم کارکن سماجی رہنماء  کامریڈ وسیم سفر نے جاری بیان میں کہاہے کہ  بلوچستان میں غریب مزدوروں کے روزگار کو "اسمگلنگ" قرار دے کر ان پر معاشی پابندیاں عائد کرنا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ یہ ایک منظم ریاستی پالیسی کا حصہ معلوم ہوتا ہے جس کا مقصد بلوچ عوام کو ان کے قدیم معاشی ذرائع سے محروم کرنا ہے۔ ایسی پالیسیوں کے ذریعے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا ذمہ غریب مزدوروں پر ڈال کر اصل سرمایہ دار طبقے کو تحفظ دیا جا رہا ہے، جو کہ سراسر ظلم اور منافقت ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ دوسری جانب، وزیر اعظم اور آرمی چیف کا حالیہ دورہ ایران اور دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کے معاہدے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب تمام سرحدی تجارت صرف ریاستی سطح پر ہوگی۔ یہ فیصلے مشرقی اور مغربی بلوچستان میں بسنے والے عام عوام کو اس عمل سے خارج کرنے کی سازش ہے۔ گویا اسلام آباد اور تہران کے درمیان ہونے والی تجارت کا فائدہ صرف سرمایہ دار طبقے اور مقتدر قوتوں کو پہنچے گا، جبکہ اس کا بوجھ غریب بلوچ عوام کو بےروزگاری اور بھوک کی صورت میں اٹھانا پڑے گا۔

کامریڈ نے کہاہے کہ بلوچ قوم صدیوں سے بارڈر ٹریڈ کے ذریعے—گدھوں، اونٹوں، اور دیگر روایتی ذرائع سے—اپنے بچوں کا پیٹ پالتی آ رہی ہے۔ یہ تجارت بلوچ قوم کی ثقافت، تاریخ اور روزگار سے جڑی ہوئی ہے۔ لیکن آج اسلام آباد میں بیٹھے فیصلے ساز ان تمام کراسنگ پوائنٹس کو بند کر کے غریبوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، صرف اس لیے کہ انہیں ان عوام کی تکالیف اور بنیادی حقوق سے کوئی سروکار نہیں۔
یہ مزدور نہ ریاست سے تنخواہیں لیتے ہیں، نہ پنشن، نہ کسی مراعت کے طالب ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ لوگ ملکی معیشت کو سہارا دے رہے ہیں۔ اگر یہی اشیاء ریاست بیرون ملک سے منگوائے، تو قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوگا۔ مگر یہی سامان مقامی بارڈر ٹریڈ سے سستے داموں، روپے میں دستیاب ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس پر "قومی خزانے کو نقصان" کا لیبل لگا کر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔
اگر واقعی قومی خزانے کے تحفظ کی بات ہے، تو پھر پی آئی اے، پی ٹی سی ایل، اسٹیل ملز، شوگر ملز، اور دیگر ایسے ادارے کیوں بند نہیں کیے جاتے، جو سالانہ کھربوں کے خسارے میں چل رہے ہیں؟ ان اداروں میں لاکھوں افراد بغیر کسی عملی کارکردگی کے صرف تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں، اور ان پر کبھی "نقصان دہ" کا لیبل نہیں لگتا۔

انھوں نے کہاہے کہ بارڈر کی بندش ایک معاشی فیصلہ نہیں بلکہ سیاسی انتقام کی شکل ہے، جو بلوچ قوم کے خلاف جاری امتیازی رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر واقعی ریاست کو عوام کی فکر ہے، تو روزگار ختم کرنے سے پہلے متبادل مہیا کیے جائیں۔ ورنہ یہ اقدامات سراسر استحصال اور جبر کی علامت ہیں۔
بلوچ قوم کو ان کے قدرتی وسائل—ریکوڈک، سیندک، سونا، چاندی، سنگِ مرمر، سوئی گیس، اور گوادر و دیگر ساحلی خزانوں—سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ پاک-چائنا اکنامک کوریڈور جیسے بڑے منصوبے بھی بلوچ عوام کو فائدہ دینے کے بجائے اسلام آباد، لاہور، اور پنجاب کے مفادات تک محدود کر دیے گئے ہیں۔

انھوں نے بیان میں مزید کہاہے کہ ایرانی سرحد—ردیگ، گبد، کلاتو، تفتان—سے روزانہ سرمایہ داروں کے ٹریلر، آئل ٹینکرز، اور کنٹینرز اربوں روپے کا سامان لے کر ملک کے دوسرے حصوں میں جاتے ہیں، اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن جب ایک غریب بلوچ مزدور چند لیٹر پٹرول یا راشن لے کر دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتا ہے، تو اسے مجرم بنا دیا جاتا ہے۔

کامریڈ نے آخر میں کہاہے کہ یہ دہرا معیار ناقابلِ قبول ہے۔ بارڈر روزگار پر پابندی درحقیقت بلوچ مزدوروں کے خلاف ایک واضح ریاستی جارحیت ہے، جو ہر انصاف پسند انسان کو مسترد کرنی چاہیے۔ اگر ریاست جمہوری اصولوں اور برابری پر یقین رکھتی ہے، تو اسے تمام فیصلے شفاف، مساوی اور عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنے ہوں گے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post