کوئٹہ ( پریس ریلیز ) انسانی حقوق اور سماجی سرگرم کارکن کامریڈ وسیم سفر بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) اور اس کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کے خلاف دیا گیا بیان نہ صرف نفرت انگیز ہے بلکہ عسکری قیادت کی سیاست میں مداخلت کا واضح ثبوت بھی ہے۔ یہ بیان اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ سمیت کئی بلوچ سیاسی کارکنان کو غیر قانونی طور پر پابند سلاسل رکھا گیا ہے اور یہ سب کچھ عسکری اداروں کی ایما پر ہو رہا ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ اگر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی مظاہروں میں "دس سے پچیس افراد" شریک ہوتے ہیں، جیسا کہ ترجمان نے دعویٰ کیا، تو اس قسم کا بیان دینا حکومت بلوچستان یا کسی سول ترجمان کا کام ہے۔ فوجی ترجمان کا یہ طرزِ تخاطب نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ غیر آئینی بھی، کیونکہ جمہوری معاشروں اور ویلفیئر اسٹیٹس میں دو افراد بھی اگر احتجاج کریں تو ریاست پر لازم ہے کہ وہ ان کے قانونی مطالبات کو سنے اور ان پر سنجیدگی سے غور کرے۔
کامریڈ نے کہاہے کہ فوجی ترجمان کا کام عسکری کارروائیوں اور دفاعی امور سے متعلق معلومات دینا ہے، نہ کہ سیاسی بیانات دینا۔ سیاسی جماعتوں، صوبائی و وفاقی حکومتوں اور سول اداروں کا دائرہ اختیار الگ ہے، جس میں مداخلت آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
انھوں نے مزید کہاہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک پرامن اور غیر مسلح سیاسی تنظیم ہے، کوئی عسکریت پسند ونگ نہیں کہ اس کے خلاف پریس کانفرنسز کی جائیں۔ جبری گمشدگیوں پر آئی ایس پی آر کی وضاحتیں زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ سینکڑوں کیسز میں ریاستی اداروں کی موجودگی میں شہریوں کو ان کے اہل خانہ کے سامنے اغوا کیا گیا ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ "جبری لاپتہ افراد پہاڑوں پر لڑ رہے ہیں" نہ صرف حقائق کو مسخ کرنا ہے بلکہ ہزاروں متاثرہ خاندانوں کی دل آزاری بھی ہے۔
وسیم سفر نے بیان کے آخر میں کہاہے کہ عسکری اداروں کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے چاہیں۔ ملک کے اندر سیاسی تحریکوں، تنظیموں اور جمہوری سرگرمیوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ملک کا آئین ہر ادارے کی حدود کا تعین کرتا ہے، اور انہی حدود میں رہتے ہوئے ذمہ داریاں نبھانا ہی اداروں کی مضبوطی اور ریاست کی بقا کی ضمانت ہے۔