کوئٹہ ( پ ر ) جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو آج 5624 دن ہو گئے ہیں ۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں کیچ سے بی این پی مینگل کے رہنماؤں شے ریاض بلوچ، سلال اکرم، شے محراب جبکہ خاران سے سیاسی اور سماجی کارکنان محمد رحیم بلوچ، داد محمد بلوچ اور حبیب بلوچ نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔
وائس فار بلوچ مسسنگ کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہےکہ بلوچستان بھر چھاپوں جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے میں مصروف ہے پنجگور، تربت، ڈیرہ بگٹی، آواران مشکے نال گریشہ قلات بولان سمیت مختلف علاقوں میں فورسز نے بلاجواز چھاپے مارے اور نہتے بلوچوں کو جبری اغوا کرنے اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا عمل جاری ہے ۔ 15 اکتوبر کو مارواڑ بولان ماورائے قانون عدالت چھاپے مارکر چادر و چار دیواری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھروں میں موجود عورتوں اور بزرگوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور علاقہ مکینوں کے مطابق 40 افراد کو ماورائے قانون عدالت جبری طور پر اغوا کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
بلوچستان میں فورسز کی دہشتگردی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی صرف چند مثالیں ہیں۔ وی بی ایم پی کے زیراہتمام لاپتہ افراد کے لواحقین نے ایک عزم کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالیوں اور اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کے خلاف پرامن جدوجہد کر رہے ہیں ۔
ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی دہشتگردی جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشوں میں ملوث ریاستی ادارے آج میڈیا کی خاموشی اور ذمہدار اداروں کی بے حسی کو اپنا سہارا بنائے ہوئے ہیں۔ اور انہیں نہ کسی احتجاج کی پرواہ کرتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ کسی آواز پرکان دھرتے نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی پامالی روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ آئے روز ماورائے قانون چھاپے گرفتاریاں جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشیں جیسے واقعات بلوچستان کی صورتحال کی سنگینی کے واضح علامتیں ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال میں اگرچہ کسی بھی عالمی میڈیا ملکی میڈیا اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں نے اب تک جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل افسوس حد تک ناکافی ہے ۔ کسی بھی عالمی قوانین عالمی چارٹر پر اعتماد ہے ۔ اس کے لیے عالمی اداروں اور عالمی میڈیا کا یہ کردار انتہائی مایوس کن ہے ۔