سماجی و انسانی حقوق کے حمیدہ نور ، اور قدرتی آفات سے متاثرہ علاقہ مکین
نیاز محمد جاموٹ شال پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے ، اور اس وقت دنیا اس سے پیدا ہونے والی آفات سے نبٹ رہی ہے۔لیکن اس حقیقت کو پاکستان جیسے ملک میں نہایت ہی غیر سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ جس کے کئی ایک اسباب ہیں۔جن میں نچلی سطح پر حددرجہ ناخواندگی اور عام لوگوں کی جہالتوں کی حد تک لاعلمی ہےجبکہ حکومتی سطح پر ناقص منصوبہ بندی ، اقربا پروری ، زیادہ سے زیادہ بینک بیلنس بڑھانے کہ ہوس، نااہل لوگوں کا اقتدار پر قابض رہنا بھی شامل ہے۔جس کے پیش نظر ہر سال آنے والی قدرتی آفات سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں زندگیاں ، قیمتی املاک ، زرخیز زمینیں اور فصلیں داؤ پر لگی رہتی ہیں۔ یہاں ہم اگر ہم بلوچستان جیسے خطے کو دیکھیں جو جغرافیائی لحاظ سے بہت بڑا ہے۔
اس سے کہیں بڑے پیمانے پر بلوچستان میں قدرتی آفات کا تسلسل نظر آتا ہے۔ جس طرح کہ زلزلے، قحط سالی ، سونامی، سیلابی تباہیوں جیسے آفات سرفہرست ہیں ۔
وہ پورے بلوچستان خاص طور پر نصیراباد ڈویژن، سبی ڈویژن کے ساتھ قلات ڈویژن ہر سال غیر معمولی بارشوں سے متاثر ہیں اس سے بڑھ کر ان تمام اضلاع میں سیلابی ریلوں کی وجہ سے نقصانات بڑھ رہے ہیں۔
ان اضلاع میں گرین بیلٹ کے مخصوص اضلاع صحبت پور۔ جعفراباد،نصیراباد،اوستہ محمد، جھل مگسی، سبی، کچھی، ہم گرین بیلٹ کے طور پر جانتے ہیں سیلاب سے متاثر ہیں۔اور یوں لگتا ہے جیسے سیلابی تباہی ان کے مقدر میں لکھ دی جا چکی ہے۔
یہ علاقے 2010 کے سیلاب کے بعد پر دوسرے سال سیلاب سے متاثر ہورہے ہیں۔ یہ علاقے نہری نظام ہونے کی وجہ سے زراعت و مال مویشی پہ انحصار کرتے ہیں ۔
آپ اندازہ کرسکتے ہیں ان علاقوں میں آفات کی وجہ سے نا صرف کسان معاشی طور پر بدحالی کا شکار ہے تو وہیں اناج کی کمی کے باعث مہنگائی میں بھی اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔
اس کے ساتھ میں آپ کی توجہ سماجی و معاشرتی تبدیلیوں کہ طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گی۔
معاشی بدحالی ، طبقاتی لحاظ سے ناہموار نظام تو پہلے سے موجود ہے سیلاب سے مزید بڑھ جاتا ہے جس وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ علاقے کے کلچرل ویلیوز تباہ ہورہی ہیں۔ سماجی و خاندانی ڈھانچہ تباہ ہورہا ہے۔
برائیوں اور مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ جس میں کم عمری و زبردستی کی شادی، سیاہ کاری، زچہ و بچہ کی صحت، ذہنی امراض ، معذوری ، پیسوں کے عیوض بیٹیوں کو بیچ دینا جیسے گھناؤنے و قبیح عمل میں اضافہ ہے۔
انھوں نے کہاکہ ضلع صحبت پور سیلاب سے متاثرہ علاقہ ہے اور مزید سیلابی ریلوں کی وجہ سے کچھ دنوں میں مزید تباہی ممکن ہے۔ اس وقت بھی کئی گاؤں دیہات زیرآب اچکے ہیں عوام سڑکوں پر بغیر کسی چھت کے 50 سے 55 ڈگری گرمی میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔
صحبت پور سے پٹ فیڈر کینال کی بھل صفائی نہ ہونے جس پہ اربوں روپے بجٹ مختص ہونے کے باوجود نہیں ہوسکی۔
آر ڈی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے ساتھ کچھی کینال پر سست روی کنسٹرکشن کی وجہ سے ریلوں کے دباؤ بڑھ جاتا یے تو پانی کا فلو پٹ فیڈر کینال میں گرتا ہے جس سے کمزور پشتوں کی وجہ سے بند ٹوٹ جاتے ہیں اور لاکھوں کیوسک پانی آبادی کی طرف آتا یے
جب تک حیردین کیریئر ڈرین کو ایک ماسٹر پلان کے تحت پی سی ون کے مطابق ملگزار کو زیرو پوائنٹ بناکر اس کی ریماڈلنگ نہیں کی جاتی تب تک حیردین مانجھی پور پل ، گوٹھ اکبر کھوسہ نورن پل ، گوٹھ زین العابدین پل ، کاپاری پل ، مولوی قادر بخش روڈ پل ، دمبڑی پل مراد علی پل اور مشہور زمانہ آرڈی 166 پل سمیت دھنی پرتہ بمبل سے لے کر نور واہ کراس تک تمام کراسنگ چینلز کو نئے سرے سے بنایا جائے تاکہ پانی کے بہائو میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
پریس کانفرنس میں کہاکہ جعفرآباد کے تمام چھوٹے نہروں کا نکاسی آب کا نظام براہِ راست کھیر تھر کینال سے ہوتے ہوئے سندھ میں جاتا ہے مگر بلوچستان اور سندھ کے سیاسی نمائندوں اور بڑے جاگیرداروں کی طاقت کی وجہ سے نکاس آب کا راستہ روکا جاتا ہے جس سے قیدی شاخ ، محبت شاخ بالان شاخ ، باری شاخ ، عمرانی شاخ ، مگسی شاخ سمیت چھوٹے بڑے سیم نالوں میں شگاف پڑنے کی وجہ سے پورا علاقہ شدید سیلاب کی زد میں آ جاتا ہے ۔
0210 -12۔ 2022 اور اب 2024 میں بھی صورتحال تشویشناک ہے۔
منجھو شوری، نصیرآباد کی بدقسمتی کہیں پورا سال پانی کے لیے ترستے عوام کسان، محنت کش اس وقت ڈوب جاتے ہیں جب اقتدار والے بڑے جاگیردار اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے اس علاقے میں پانی چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے کاشت کار پہلے پانی نا ہونے کی وجہ سے پھر سیلاب سے تباہی کے دہانے پہ ہیں۔
اگر اس سلسلے کو انسانی نسل کشی سے تعبیر کیا جائے تو غلط نا ہوگا۔
اگر ریاستی اداروں سمیت اقتدار میں موجود لوگ ذکر بالا کوتاہیوں سے پاک ہونے سمیت اپنے خطے سے مخلص ہوتے تو کوئی شک نہیں کہ ان قدرتی آفات سے باآسانی نپٹا جا سکتا تھا۔
میرا چونکہ نصیرآباد ڈویژن سے تعلق ہے اور میں اپنی ڈویژن کے جغرافیائی لحاظ سے بخوبی واقف ہوں تو اسی کو بطور مثال پیش کرتے کہوں گی
کہ اس سالانہ تباہی کے دیو سیلاب سے بچاؤ باآسانی ممکن ہے۔
جس سے جہاں تباہی کے نقصانات کو روکا جا سکتا ہے ۔
وہیں اس بے دریغ ضائع ہوتے انتہائی قیمتی لاکھوں کیوسک میٹھے پانی کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے ۔نصیرآباد ڈویژن جو کہ اسوقت بھی سیلابی صورتحال سے دوچار ہے۔
جسے ہمیشہ بالائی علاقوں سے آنیوالے سیلابی ریلے ، جوکہ پہاڑی برساتی موسمی دریاؤں سے بہتے اسے تین اطراف سے نشانہ بناتے ہیں۔ جن میں مغربی جنوب سے دریائے مولہ، بولان ندی، شوران نالہ، مغربی شمال سے ناڑی بینک، تلی نالہ، شمال سے لہڑی علاقہ کا گگھی بند، چھتر ، فلیجی کا برساتی دریا کھاٹر نالہ، جبکہ شمالی مشرق سے ڈیرہ بگٹی و سوئی کا برساتی پانی سیلابی صورت اختیار کرتے ہوئے جھل مگسی سے چھتر اور وہاں سے آگے پٹ فیڈر کینال پر دباؤ ڈالے صحبت پور تک کے لیئے وبال جان بن جایا کرتا ہے۔ بات مختصر کریں تو ان تمام ندی ، نالوں اور برساتی دریاؤں کے پہاڑوں سے نکلنے والے دہانوں پر بخوبی بڑے اور مضبوط ڈیمز بنا کر سوئی سے چھتر، وہاں سے لہڑی تا سبی اور ڈھاڈر سے جھل مگسی تک غیر آباد و تمام لاکھوں ایکڑ بنجر زمینوں کو بھی باآسانی زراعت کے قابل بنا کر اربوں روپے سالانہ زرمبادلہ کمانے سمیت، ہر سال کی تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ پانی زندگی ہے اور جب ان بنجر زرخیز زمینوں کو سال سال بھر زرعی پیداوار کے لیئے پانی وافر مقدار میں موجود ہوگا۔ تو ظاہر بات ہے کہ یہاں پیڑ پودوں کا اگنا بھی لازمی ہوگا۔ جس سے عالمی آلودگی کو کم کرنے بھی خاطر خواہ نتیجہ ملے گا۔ ساتھ ہی عام لوگوں کو درختوں کی افادیت سے روشناس کرانے ۔
انھوں نے کہاکہ اسوقت بھی بلوچستان کے اکثر ڈویژن میں سیلاب متاثرین انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں ، جنھیں بروقت امداد پہنچانے کے لیئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔ اسوقت بھی نصیرآباد ڈویژن کے درجنوں دیہات ایسے ہیں جہاں کے راستے مکمل بند ہونے کی وجہ سے متاثرین بھوکے پیاسے لاوارثوں جیسی حالت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اور سرکاری مشینری لاچارگی کا نمونہ دکھائی دیتی ہے ۔ اسوقت بھی قبولہ ، بابا کوٹ ، جھل مگسی کے درجنوں زیریں دیہاتوں سمیت چھتر کے کئی ایک دیہاتوں تک کوئی بھی راستہ بحال نہیں ہو سکا۔
ان اضلاع کو آفت زدہ قرار دیکر ایمرجنسی نافذ ہے لیکن صوبائی حکومت کی غیر سنجیدگی و دیرپا اقدامات نا اٹھائے جانے کی وجہ سے اس وقت بیت بڑے سیلاب اور انسانی المیہ کا سامنا کر پڑ سکتا ہے
انھوں نے کہاکہ ہماری وزیراعظم، بلوچستان کے وزیر اعلی سے اپیل کرتے ہیں وہ ترقیاتی بجٹ کے بجائے نہری نظام کو موثر بنائیں، تو یہ خطہ بھی معاشی حوالے سے گیم چینجز بن سکتا ہے۔
1۔ سالانہ مرمت اور صفائی کی مد میں جو رقم آتی ہے اس سے حیردین ڈرین کے دونوں پشتے مضبوط کیئے جائیں۔
2۔ میٹھے پانی کے اسٹاک سے ہر سال ریونیو میں اضافہ ہوگا اس سے بھی نیا نہری نظام بنا جاسکتا ہے۔
3۔ صوبائی حکومت ، PDMA، کمشنر اور تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو مطلع کرتے ہیں کہ جلد از جلد عوام کی ریلیف کے لیے اقدامات کریں ۔
4۔ پٹ فیڈر ہو یا کھیترتر کینال کی بھل صفائی کو یقینی بنایا جائے ۔
5۔ دونوں نہروں کی کمزور پشتوں کو از سر نو تعمیر کرکے مضبوط کیا جائے ۔
6۔ محکمہ ایریگیشن و دیگر متعلقہ محکموں کو بروقت اقدامات کرنے کی تلقین کریں ۔
دیہی علاقوں میں مشینری کو فوری طور پر عوام کی تحفظ کے لیے عمل میں لایا جائے ۔
7۔ اوستا محمد ، صحبت پور ، نصیرآباد ، جھل مگسی اور جعفرآباد میں زیرآب علاقوں کا سرکاری سطح پر کمیٹیاں تشکیل دے کر عوام کے نقصانات کا تخمینہ لگا کر فوری ریلیف فراہم کیا جائے
8۔ پٹ فیڈر کینال، کچھی کینال کی تعمیر مکمل کی جائے اور ان کینال کے لیے مختص بجٹ کے صحیح استعمال کے لیے واچ ڈاگ کمیٹی تشکیل دی جائے خو فنڈز کے غلط استعمال کو روکا جاسکے۔
9۔ نہروں کی تعمیر و ترقی کے لئے ہر سال مختص فنڈز میں خرد برد کی شفاف تحقیقات کی جائیں ذمہ دار کرپشن میں ملوث ذمہ داران کو سزائیں دی جائیں آئندہ کوئی اس لیول پہ انسانی جانوں کے ساتھ کھیل نا سکے۔
10۔ نصیرآباد میں دریاؤں کے ریلوں سے بچاو کے لیے بیرونی کی طرف نہر تعمیر کی جائے جو سالانہ پانی کو اسٹاک کرنے کے ساتھ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا سکتا ہے۔
آخر میں کہاکہ بلوچستان اور خاص گرین بیلٹ کے ساتھ سوتیلا سلوک ختم کیا جائے اور افت کو آفت جان کر اس پر ایمرجنسی بنیادوں پہ دیرپا اقدامات کیئے جائیں اور نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنا جاسکے نا کہ ہر آفت طاقت وروں کے لیے کاروبار بنے۔
ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ مندرجہ بالا کو سنجیدہ لے بصورت دیگر گرین بیلٹ کے کسان قومی شاہراہوں کو بند کر دیں گے اور غیر معینہ مدت تک ہڑتال کی جائےگی۔