بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سوشل میڈیا ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
مجھے یہ جان کر بہت افسوس و غصہ آیا کہ کراچی ایئرپورٹ حکام نے بلوچ انسانی حقوق کے کارکن سمیع دین کو اتوار کے روز ملک سے باہر جانے سے روک دیا، باوجود اس کے کہ ان کے پاس ویزا، ٹکٹ اور تمام ضروری سفری دستاویزات موجود تھیں۔
انھوں نے کہاہے کہ یہ نہ صرف بنیادی انسانی حقوق بشمول نقل و حرکت کے حق سے انکار کی ایک واضح کوشش ہے بلکہ معلومات کو محدود کرنے اور بلوچستان کے بارے میں بولنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کی بھی کوشش ہے۔
ماہ رنگ نے کہاہے کہ یہ واضح ہے کہ سمی کو بیرون ملک سفر کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے کیونکہ وہ ایک آواز کی وکیل ہیں جنہوں نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فعال طور پر اجاگر کیا ہے۔
اس طرح انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کامریڈ وسیم سفر نے جاری بیان میں کہاہے کہ بلوچ سیاسی رہنما کارکنوں کیخلاف ریاستی اوچھے ہتھکنڈے انسانی حقوق کے عالمی ایوارڈ یافتہ خاتون بلوچ مزاحمتی رہنما سمی دین جان بلوچ کی بیرون ملک سفر پہ پابندی عائد کرنا قابل مذمت افسوسناک ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ انکی نقل حمل میں مکمل پابندی عائد کرنا سامراج قابض گیر قوتوں کی بوکھلاہٹ شکست خوردگی کی واضح مثال انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کیخلاف موئثر توانا آواز کو دبانے کی مترادف ہے،
ایک طرف وہ سامراج قابض گیر قوتیں بلوچ قومی تشخص بقاء کی پامالی انسانی حقوق کی سنگین ایشوز کو افہام تفہیم سے حل کرنے کی دعوت دے رہے ہیں،
دوسری جانب پرامن سیاسی جمہوری عمل کے پیروکار سیاسی کارکن رہنماؤں کیخلاف جارخانہ کاروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں ریاست سمی دین جان کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے انکی نقل حمل پہ پابندی عائد کرنا فاشسٹ ریاستی اداروں کی جبر جارہیت کی واضح پیغام ہے ۔
کامریڈ وسیم سفر نے کہاہے کہ اسی قسم کی غیر جمہوری غیر آئینی عمل ریاستی مقتدرہ قوتوں کی آئین جمہوریت کی منہ پر زور دار طمانچہ ہے گزشتہ 16 سالوں سے سمی مہلب اپنی باپ کا مقدمہ پورے دنیا کے سامنے پیش کر انصاف کے متلاشی جینے کا حق مانگنے کیلئے اس ملک کے تمام در دیواروں پہ دستک دینے سے تھک چکے ہیں پھر بھی سلام ہے انکی جرعت برداشت ہمت استقلال کے پہاڑ سمی دین جان کوئٹہ سے اسلام آباد تین ہزار کلومیٹر پیدل سفر طے کرکے وہاں سے بغیر کسی نتیجے واپس ہوتے ہوئے کبھی اپنی مزاحمتی جہدوجہد سے نہ مایوس ہوئی ناکہ اپنی بنیادی حقوق کی مزاحمت سے دستبردار ہوئے بلکہ ہر وقت پرعزم رہتے ہوئے سارے مظلوم محکوم جبری گمشدگی کے شکار متاثرہ خاندانوں کی آواز بنے،
انھوں نے کہاہے کہ سامراج قابض گیر قوتیں یہ بھول چکی ہیں 2009 جب ڈاکٹر دین جان کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو سمی کی عمر 11 سال لگ بھگ تھی اس نے مزاحمتی عملی میدان میں قدم رکھ کر پرورش پائی ۔ آج وہمزاحمت کی علامت بن گئ ہیں ،تو آپ اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے کبھی انہیں مرعوب نہیں کرسکتے،
بقول سمی دین جان کے آج سمی دین جان ایک لڑکی نہیں ایک عورت نہیں تمہاری ریاست کی ماتھے پر ظلم جبر بربریت کی ایک علامت ہے،
انھوں نے کہاہے کہ سمی دین جان اسوقت اپنے بچپن سے ریاست و ریاستی اداروں کی جبر جارہیت کیخلاف آواز اٹھائی تمھاری مکروہ چہرے کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کردیا آج پوری بلوچ قوم جس کی پشت پہ کھڑی ہیں سمی دین جان مظلوم محکوم بلوچ قوم کی موئثر توانا آواز ہیں وہ سامراج قابض گیر جابر ڈکٹیٹر شپ کی اوچھے ہتھکنڈوں سے کبھی مرعوب نہیں ہونگے,
ریاست و ریاستی مقتدرہ قوتیں جان لیں وہ اپنی منفی ہتھکنڈوں سے سمی دین جان نہ جھک سکتی ہے نہی اپنے قومی تشخص بقاء ننگ ناموس کی تحفظ پاسداری کی دفاع مزاحمت سے دستبردار ہو سکتی ہیں۔