سید ہاشمی ریفرینس لائبریری ملیر کو نام نہاد ترقی کے آڑ میں مسمار کرنے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے۔ بساک



بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بساک کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ 

سید ظہور شاہ ہاشمی ریفرینس لائبریری ملیر بلوچی زبان و ادب کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچوں کی قومی میراث ہے جسے شہید صباء دشتیاری نے انتہائی محنت سے بناکر فعال بنایا تھا جو آج تک فعال ہوکر قائم ہے۔ پروفیسر صباء نے انتہائی مشکل حالات میں بلوچ قوم سے مدد لے کر اسے تعمیر کیا اور ان کا خواب تھا کہ یہ بلوچی زبان و ادب کا علمی مرکز بن کر ایک تحقیقی مرکز کے طور پر قائم رہے گا۔ لائبریری کو اس طرح مسمار کرنے کی کوشش کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔


انھوں نے کہاہے کہ ملیر ایکسپریس وے جسے کچھ بااثر لوگ اور طبقہ بنارہے ہیں بحریہ ٹاون سے شروع ہوکر ملیر کے کئی علاقوں سے ہوتے ہوئے ڈی ایچ اے تک جاتی ہے جس کے راستے میں کئی مقانات اور لوگوں کے گھر آرہے ہیں جو گرائے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس پروجکٹ سے ملیر کی ماحولیاتی نظام بھی متاثر ہوری ہے۔ حکومت اور بااثر طبقہ لوگوں کو ڈرا و دھمکا کر انکی زمینیں ہڑپ رہی ہیں جس کے خلاف مقامی باشندوں نے کئی بار احتجاج بھی کی ہے مگر کوئی سننے والا نہیں۔ اسی نام نہاد ترقی کے پروجیکٹ جو صرف ایک مخصوص طبقہ کے لئے ہے کے آڑ میں بلوچی زبان کا عِلمی مرکز سید ہاشمی ریفرینس لائبریری آرہا ہے۔ لائبریری کے نمائندوں نے حکام بالا سے کئی بار رجوع کی ہے مگر یہ سارے ادارے سننے کے بجائے انہی طبقہ کی حمایت کررہے ہیں جو بہت ہی افسوسناک ہے۔


بساک کے ترجمان نے کہاہے کہ سید ریفرینس لائبریری بلوچوں کی قومی ادارہ ہے، اس قومی عِلمی مرکز کو اس طرح گرانے کی کوشش کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ہم بطور بلوچ طلباء تنظیم یہ واضح کرتے ہیں کہ اس طرح کے علم دُشمن حرکتوں کے خلاف ہم اپنی پلیٹ فارم پر مزاحمت کریں گے۔ ہم حکام بالا سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بلوچ دشمن پالیسی کو ترک کر دیں وگرنہ ہم اس کے خلاف بھرپور احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ اپنے بلوچ قوم کے نوجوان طلباء، استاد، ادیب و دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اِس کے خلاف آواز اٹھا کر اپنے قومی علمی اداروں کو بچانے میں کردار ادا کریں۔


Post a Comment

Previous Post Next Post