بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ عرصہ دراز سے ریاستی وطیرہ رہا ہے کہ بلوچ و دیگر مظلوم اقوام کے قومی تحریکوں کو خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے مختلف حیلے بیانوں کے ذریعے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔ 1948 سے لے کر آج دن تک بلوچ قومی تحریک و قومی حقوق کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو طاقت سے دبانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ ہر ایسی کوشش ظلم و ستم کے ان مٹ نقوش چھوڑ گئی ہے جب کہ ریاستی توقعات کے برعکس قومی تحریک مزید مظبوط ہوتی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ریاست کی جانب سے بلوچستان کے تین سرداروں کے خلاف جھوٹا بیانیہ بنا کر انہیں بلوچستان کے مسائل کا جڑ قرار دیا گیا اور پھر شہید نواب اکبر خان بگٹی کے خلاف ڈیرہ بگٹی میں ایک نا ختم ہونے والے جنگ کا آغاز کیا گیا۔اس آپریشن کے دوران طاقت کے تمام ذرائع اور ہر وہ اصلحہ و گولہ بارود استعمال کیا گیا جو کسی بھی بڑے دشمن کے خلاف استعمال کیا جاسکتا تھا مگر پیر مرد اکبر خان بگٹی کو شہید کرنے کے باوجود نہ تو ڈیرہ بگٹی کے حالات سدھرے اور نہ ہی مجموعی طور پر بلوچستان کے حالات میں کوئی مثبت تبدیلی آئی بلکہ بلوچ وطن کے سینے پر ایک ایسا گھاؤ لگا جس سے آج تک خون رس رہا ہے اور آج ایک بار پھر "عزم استحکام" نامی آپریشن کا مقصد اپنے نوآبادیاتی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بلوچ وطن کو خون میں نہلانا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کٹھ پتلی بلوچستان حکومت کو سلیکشن کے دن سے ہی ہم ان خدشات کا اظہار کرتے آرہے تھے اور آج ہمارے تمام تر خدشات درست ثابت ہوتے جارہے ہیں۔ موجودہ نام نہاد حکومت ان تمام افراد پر مشتمل ہے جو بلوچ وطن میں جاری جنگ کے سب سے بڑے بینیفشری ہیں۔ان کٹھ پتلیوں کے ذریعے عالمی دنیا کو تاثر دیا جارہا ہے کہ بلوچستان کے متعلق ہونے والے تمام فیصلوں میں وہاں کے نمائندوں کی رائے شامل ہے بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
آخر میں ان کا کہناتھا کہ ہم موجودہ کٹھ پتلی حکومت اور ریاستی اداروں کو متنبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان میں کسی بھی قسم کے طاقت کے استعمال سے باز رہے۔ ہم عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور بالخصوص اقوام متحدہ سے اہیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں جاری سنگین انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور بلوچستان میں بنیادی انسانی حقوق کی تحفظ یقینی بنائیں۔