کیچ تربت ڈپٹی کمشنر کے دفتر سامنے گزشتہ 8 دنوں سے جاری دھرنے کے دوران جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ بلیدہ زامران سے تعلق رکھنے والے مسنگ پرسنز کے لواحقین کی جانب سے 2 جون 2024 کو بلیدہ سے تربت تک ایک لانگ مارچ کا انعقاد کیا گیا جو بعد میں ڈپٹی کمشنر کیچ کے آفس کے سامنے پانچ دنوں تک دھرنے کی صورت میں جاری رہا، لیکن 6 جون کو ضلعی چیئرمین، ڈپٹی کمشنر کیچ، اے ڈی سی اور اے سی کیچ کی یقین دہانی سے تین دن کی مہلت پر ہم نے دھرنے کو مؤخر کردیا، مگر ضلعی چیئرمین اور ڈپٹی کمشنر کی یقین دہانی کے باوجود ہمارے مطالبات پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
ہمارے مطالبات ہماری اولادیں اور لاپتہ پیارے ہیں جو ہمیں چاہئیں.
انھوں نے کہاکہ 17جون 2024 بروز عید کو ہم نے دوبارہ احتجاجی سلسلے کو جاری کرتے ہوئے ایک ریلی نکالا اور پھر دھرنے کی صورت میں ہم 4 دنوں تک شہید فدا چوک پر دھرنے کی صورت میں جاری رہا.
20 جون 2024 کو یہ دھرنا شہید فدا چوک تربت سے ڈپٹی کمشنر کیچ کے آفیس کے سامنے منتقل کیا گیا جو تاحال جاری ہے لیکن مقتدرہ کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی.
انھوں نے کہاکہ بلوچستان میں ریاستی اداروں کی جانب گزشتہ کئی سالوں سے نوجوانوں کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے انہیں لاپتہ کیا جا رہا ہے.
آئے روز تعلیمی اداروں، چوراہوں اور گھروں سے نوجوانوں کواٹھانے اور جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کا سلسلہ جاری ہے.لوگوں کو ماورائے آئین وقانون اٹھانے سے یہاں کے لوگوں اور ریاست کے درمیان ایک خلیج بنتا جارہاہے جو مزید گہرا ہوتا جارہے۔ ریاست اور ریاستی ادارے کو اگر کسی شخص کا ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث سمجھتے ہیں تو ان کے خلاف قانونی کاروائی کرکے ان کے کے وارنٹ گرفتاریاں جاری کر کے انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
مگر اس طرح غیر قانونی و غیر انسانی طریقے سے ان کو غائب کرکے لاپتہ کرنا ان کے خاندانوں کو اذیت میں مبتلا کرنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں.
کیونکہ جن بیگناہ نوجوانوں کو اٹھاکر اذیت دیکر پھر چھوڑا جاتاہے وہ انسان بننے کے قابل نہیں رہتے بلکہ نیم پاگل ونیم انسان بن جاتے ہیں.اور کئی نوجوان پھر خودکشی کرتے ہیں.جبکہ اکثر وبیشتر نوجوان اٹھائے جاتے ہیں تو شک و شبہ کی بنیاد پر اٹھائے جاتے ہیں اگر چہ انہیں بعدمیں چھوڑا جاتاہے لیکن اذیتناک سفر کے بعد وہ زہنی وجسمانی حوالے سے ابنارمل بن جاتے ہیں.
لواحقین نے کہاکہ ہمارے مطالبات بلکل سادہ ہیں اور آئین وقانون کے دائرے میں ہیں،ہمارے کوئی سیاسی عزائم نہیں،یہاں جتنے لوگ خاندان بیٹھے ہیں وہ لاپتہ افراد کے ہی لواحقین و خاندان ہیں جو صرف اور صرف اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سڑکوں پہ در بہ در ہیں. ہمیں سڑکوں پر بیٹھنے کابھی شوق نہیں بلکہ اگر ہمارے پیارے آج ہمیں لوٹا دیئے جائیں گے ہم آج ہی یہاں سے اٹھیں گے.
یہاں بیٹھنے والوں میں تِراسی سالہ جان محمد کی والدہ بی بی شراتون ہیں جو اپنی کمزوری وناتوانی اور بیماریوں کے باوجود اپنے پیارے بیٹے کی بازیابی اور نواسوں کی ترستی آنکھوں کا درد لیے بلیدہ سے سفر کرکے آئی ہیں.انکے ساتھ انکے تین نواسے ونواسیاں ہیں.
بیٹھنے والوں میں 70سالہ بزرگ واجہ میار ہیں جو ایک مزدور ہیں جنکے کمسن بیٹے فتح میار کو اٹھایاگیاہے جنکا تعلق بلیدہ سے ہے،فتح میار پڑھنے اور آگے بڑھنا چاہتے تھے اور شام کو اپنے گاؤں میں انگلش لینگویج سینٹر چلارہے تھے.
بیٹھنے والوں میں کلاہو تحصیل تمپ سے تعلق رکھنے والے نثار کریم اور شے کہن تربت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر رفیق کے خاندان کے افراد بھی موجود ہیں.
مسلم کی ڈیڑہ سالہ بہن بانڈی بھی بھائی کی تلاش میں اس تپتی دھوپ میں اس دھرنے میں موجود ہیں۔
اسی طرح پیدارک کے دونوجوان سمیر اور میران کے اہلخانہ اور آپ سر تربت سے لاپتہ جہانزیب فضل کے خاندان موجودبھی موجودہیں.
یہ تمام خاندان وہ خاندان ہیں جنکا کسی سیاسی تنظیم سے تعلق نہیں اور نا ان کے سیاسی عزائم ہیں.
پریس کانفرنس دوران کہاکہ سیاست ایک مقدس پیشہ ہے جسکا انکار نہیں کیا جاسکتا اس دوران جن طلبہ تنظیموں اور سیاسی تنظیموں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے یا کررہےہیں ہم انکے مشکورہیں اور جن سیاسی جماعتوں اور نمائندوں نے چھپ کا روزہ رکھاہے اُن سے ہمیں شکایت بھی ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں بھی آئین وقانون کی بات کررہےہیں اور ہم بھی اسی آئین وقانون کی راہ پر گامزن ہیں.
ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر ہمارے پیاروں نے کوئی جرم کیا ہے انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور اگر وہ مجرم نہیں تو انہیں رہا کیا جائے.
اگر یہ سب کرنے کیلئے ہمارے آئین وقانون نافذ کرنے والے ادارے تیار نہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ یا تو ہمارے اداروں کو ایک دوسرے پر اور اس نظام پر یقین واعتماد نہیں یا وہ آئین وقانون کو نہیں مانتے کیونکہ ہم عدالتوں کے ذریعے آئین وقانون کا سامنا کرنے کیلئے تیارہیں.
لہذا ہم آئین وقانون کیمطابق پرامن احتجاج کا حق رکھتے ہیں اسی سلسلے میں ہم گزشتہ آٹھ دنوں سے ڈی سی آفس تربت کے سامنے بیٹھے ہیں.
اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو ہم اپنے احتجاج میں مزید شدت لائینگے.
پریس کانفرنس میں انھوں نے اعلان کیاکہ اسی احتجاجی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم 26 جون 2024 بروز منگل صبح 9:30 بجے دھرنا گاہ سے عدالت تک ایک پرامن احتجاجی ریلی کا انعقاد کریں گے.اور عدالت کے سامنے احتجاج ریکارڈ کریں گے.
اور 27جون کو غلام نبی پمپ سے دھرنا گاھ تک شام 5:30 بجے ایک ریلی نکالیں گے.
جبکہ یکم جولائی بروز پیر کو ضلع کیچ میں ہرتال کا اعلان کریں گے،ہم اپنے تاجر برادری سے اپیل کریں گے کہ وہ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور یکم جولائی کے دن رضاکارانہ طورپر دکانیں اور کاروباری مراکز بند کریں.
لواحقین نے پریس کانفرنس میں کہاکہ ہم امیدکرتے ہیں کہ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سیاسی سماجی جماعتوں اور تنظیموں کیساتھ طلبہ تنظیم اور کیچ کے باشعور و غیور عوام ہمارا ساتھ دیں گے اور ہماری آواز کو توانائی فراہم کریں گے.