وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جبری لاپتہ افراد اور شہدا کے لیے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4510 دن ہوگئے اور جبری لاپتہ افراد کا مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔
پیر کے روز کیمپ میں نوشکے سے امین اللہ عبدالواحد اور فیض امیر بلوچ نے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے مخاطب ہوکر کہا ریاست نوآبادیاتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے سفاکیت کی ہر حد پار کرچکی ہے۔بلوچستان پر تسلط برقرار رکھنے کے لیے اپنے دلیل کے باعث پاکستانی حکمران دہشت پھیلانے والی ریاستی پالیسی پر گامزن ہیں جس کا مظاہرہ براہ راست فوجی کارروائیوں کے علاوہ بلوچ سیاسی کارکنان، طلباء، وکلا،ڈاکٹر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو جبری لاپتہ کرکے عقوبت خانوں میں سفاکانہ تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا جب تک ریاست کی طرف سے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری رہے گا اس کے خلاف ہماری پر امن جدوجہد جاری رہے گی۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا صرف بلوچستان نہیں بلکہ مختلف محکوم اقوام پر ریاست اور اس کے کل پرزوں، مسلح اور خفیہ اداروں کی طرف سے بہیمانہ جبر و استبداد کی دل ہلا دینے والی داستانیں سنائی دیتی ہیں۔ اس جابرانہ صورتحال سے کئی سوال جنم لیتے ہیں جن میں بعض سیاسی نوعیت کے ہیں مثلا کیا ریاست محض جبر و استبداد کا اوزار ہے اور اس کے بغیر اس کا کوئی کردار نہیں۔کیا کسی قوم اور مخصوص طبقے پر بالادستی کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔