بلوچستان چاغی کے علاقے دالبندین اور تحصیل چاغی میں کم سے کم 300 مکانات کو نقصان پہنچا ہے جبکہ سینکڑوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پرووِنشل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(پی ڈی ایم اے)کے مطابق گذشتہ ایک ہفتے کے دوران بارشوں سے چاغی، شال، گوادر، کیچ اور پشین سمیت بلوچستان کے سات اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔بارشوں کے دوران آسمانی بجلی گرنے اور مکانات منہدم ہونے سے 9 افراد ہلاک جبکہ آٹھ زخمی ہوچکے ہیں ، جبکہ سیلابی ریلوں میں پھنسے ہوئے درجنوں افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق شال، دالبندین، چاغی، تربت اور پسنی سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں رواں ماہ معمول سے کئی گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں سیلابی صورت حال پیدا ہوئی۔
افغان سرحد سے متصل چاغی کے علاقے لشکرآب کا گل محمد نامی گاں دو ندیوں کے درمیان واقع ہے۔ ان میں سے ایک ندی اوور فلو ہوئی تو سیلابی ریلے نے آبادی کا رخ کرلیا اور گاں کے سینکڑوں کچے مکانات کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔کلی گل محمد کے رہائشی سماجی کارکن گہرام خان کاشانی نے ٹیلی فون پر اردو نیوز کو بتایا کہ اتنی موسلادھار بارش لوگوں نے گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران نہیں دیکھی تھی۔دوپہر ایک بجے بارش شروع ہوئی جو رات گئے تک جاری رہی۔
نکاسی آب کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل بارش کے بعد گھروں اور گلیوں میں پانی جمع ہونا شروع ہوگیا۔ان کے مطابق اس کے بعد رات 9 بجے قریبی پہاڑیوں سے آنے والے سیلابی ریلے ندی سے اوور فلور ہوکر آبادی کی طرف آنا شروع ہوئے تو لوگ ڈر گئےگہرام خان کاشانی نے بتایا کہ پانی کا بہا بہت تیز تھا، پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی تھی، گاں میں سارے مکانات کچے اور مٹی کے بنے ہوئے ہیں اس لیے پناہ لینے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنے بال بچوں کو لے کر قریب واقع پہاڑی ٹیلوں پر چڑھ گئے۔ کئی لوگ ریلوں میں پھنسے جنہیں نوجوانوں نے نکال کر پہاڑ تک پہنچایا۔ اگر پہاڑی ٹیلے قریب نہ ہوتے تو بہت سے لوگوں کی جانیں چلی جاتیں۔
گہرام خان کے مطابق کسی کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی ،سب نے پوری رات کھلے آسمان تلے بارش میں گزاری، سرد ہوائیں بھی چل رہی تھیں جس سے کئی بچے اور بزرگ سردی لگنے سے بیمار پڑ گئے۔ہم دور سے اپنے مکانات گرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔گاں کا شاید ہی کوئی مکان صحیح سلامت بچا ہو۔ گاں کے افراد نے حفاظتی بند کو توڑ کر پانی کا رخ دوسری ندی کی طرف کردیا جس کے بعد پانی نکلنا شروع ہوگیا۔
چاغی اور دالبندین کے درجنوں دیگر دیہاتوں اور کچی آبادیوں میں بھی بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ کلی سردار احمد خان سنجرانی کے رہائشی مولوی ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی اس علاقے میں اتنی بارش نہیں دیکھی۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ افراد نے مسجدوں میں پناہ لی تو کسی نے پہاڑوں پر جا کر جان بچائی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت بے گھر ہونے والوں کی فوری مدد کرے اور انہیں سر چھپانے کی جگہ فراہم کرے چاغی کے ڈپٹی کمشنر اقبال احمد کھوسہ کے مطابق ضلعے میں بارش کے بعد ہونے والی تباہی کا تخمینہ لگانے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ اب تک کم سے کم 300 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے بتایا کہ نقصانات کا درست تعین سروے مکمل ہونے کے بعد ہی ہوسکے گا۔ پی ڈی ایم اے کی مدد سے سو دو سو خاندانوں کو امدادی سامان فراہم کردیا گیا ہے۔
پسنی میں گھروں سے پانی نکالنے میں دو سے تین دن لگ سکتے ہیںادھر بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر کی تحصیل پسنی میں بھی بارشوں کے بعد صورت حال خراب ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پسنی میں 14 اپریل کو 90 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔پسنی کے مقامی صحافی ساجد نور نے بتایا کہ مسلسل چار سے پانچ گھنٹے موسلادھار بارش کے بعد ہر طرف پانی ہی پانی جمع ہوگیا ہے۔شہر میں نکاسی آب کا نظام موجود نہیں جس کی وجہ سے دکانوں اور گھروں میں پانی داخل ہوگیا ہے۔بعض علاقوں میں گھٹنوں تک پانی موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وارڈ نمبر، چار، پانچ اور چھ میں آٹھ مکانات گرے ہیں۔ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول باغ بازار کی چار دیواری گر گئی۔ وارڈ نمبر پانچ کے ماہی گیر محلے میں مکان گرنے سے چار بچوں سمیت چھ افراد زخمی ہوگئے ہیں۔کمشنر مکران ڈویژن سعید عمرانی نے تصدیق کی کہ پسنی میں صورت حال اچھی نہیں ہے، گھروں اور گلی محلوں سے پانی نکالنے کے لیے ڈی واٹرنگ پمپس کی مدد لی جا رہی ہے۔ پانی نکالنے میں دو سے تین دن لگ سکتے ہیں ۔
پسنی کے رہائشی اللہ بخش نے بتایا کہ ڈی واٹرنگ پمپس زیادہ مددگار ثابت نہیں ہو رہے کیونکہ پائپس چھوٹے پڑ رہے ہیں، گھروں سے پانی نکال کر گلی میں پھینکنا کوئی حل نہیں۔چیئرمین میونسپل کمیٹی پسنی میر نور احمد کلمتی کے مطابق میونسپل کمیٹی کے پاس صرف پانچ واٹر پمپنگ جنریٹرز اور ایک واٹر بوزر ہے جو پہلے روز سے کام کر رہا ہے اور ہم نے ڈپٹی کمشنر گوادر سے مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں مزید مشینری فراہم کی جائے۔
گوادر سے متصل ضلع کیچ میں بھی بارشوں سے نقصانات ہوئے ہیں۔ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان نے اردو نیوز کو بتایا کہ بارشوں کے نتیجے میں بلیدہ، زامران، مند، بلنگور میں سرکاری عمارتوں، کچے مکانات اور چار دیواریوں کو نقصان پہنچا ہے۔نہینگ ندی میں پھنسے 10 افراد کو ریسکیو کرلیا گیا ہے۔
بلیدہ، مند، تمپ اور دشت میں سینکڑوں سولر پینلز کو نقصان پہنچا ہے جبکہ گندم کی فصل بھی متاثر ہوئی ہے۔مستونگ میں بارش کے بعد سنگر بائی پاس روڈ سیلابی ریلے میں بہہ گیا جس کے بعد شاہراہ کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔
موٹروے پولیس نے شہریوں کو متبادل راستہ اپنانے کی ہدایت کی ہے۔لیویز کے مطابق ہرنائی کو کوئٹہ، پنجاب اور سنجاوی سے ملانے والی شاہراہ تین دنوں سے بند ہے۔ہرنائی کے علاقے سپین تنگی میں ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے ہرنائی سبی ریلوے ٹرین سروس معطل کردی گئی ۔
ادھر شال میں بھی موسلادھارش بارشوں کے بعد اربن فلڈنگ کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ سڑکوں پر کئی فٹ پانی جمع ہوگیا۔ سرکی روڈ، سریاب روڈ، گاہی خان چوک ہنہ اوڑک، چشمہ اچوزئی ،نواں کلی، خروٹ آباد اور مشرقی بائی پاس میں پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہوگیا۔ہنہ اوڑک، نواں کلی اور چشمہ اچوزئی اگست 2022 کے سیلاب سے تباہ ہونے والی سڑکوں اور پلوں کی اب تک دوبارہ تعمیر نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے ان علاقوں کا شہر سے رابطہ منقطع رہا۔
ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے بتایا کہ شال میں ضلعی انتظامیہ، میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور پی ڈی ایم اے نے مل کر پانی نکالنے کا کام کیا شہر میں اب صورت حال بہتر ہوگئی ہے۔
ترجمان کے مطابق بلوچستان میں بارشوں سے مجموعی طور پر سات اضلاع متاثر ہوئے ہیں جن میں کوئٹہ، پشین، گوادر اور کیچ شامل ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں سوراب، ڈیرہ بگٹی اور پشین میں پانچ افراد جبکہ کیچ اور لورالائی میں چھتیں گرنے سے دو افراد کی موت ہوئی ہے۔
پی ڈی ایم اے کے کنٹرول روم کے انچارج یونس عزیز کے مطابق چمن اور قلعہ سیف اللہ میں مزید دو افراد آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں ہلاک ہوئے ہیں جس کے بعد اموات کی تعداد 9 تک پہنچ گئی ہے۔
گوادر اور لسبیلہ میں سیلابی ریلوں کی وجہ سے مکران کوسٹل ہائی وے اور پشین میں دیہی علاقوں کی متاثر ہونے والی سڑکیں ٹریفک کے لیے بحال کردی گئی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ، پشین، کیچ اور چمن سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں درجنوں افراد کو ریسکیو کیا گیا۔
ترجمان حکومت بلوچستان کے مطابق بلوچستان حکومت نے بارشوں سے متاثرہ اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کی ہے اور تمام افسران اور عملے کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔ متاثرہ اضلاع میں دو دن کے لیے سرکاری و نجی سکول بھی بند رکھے گئے ہیں۔
ترجمان حکومت بلوچستان نے بتایا کہ وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی اربن فلڈنگ اور عوام کو پہنچے والے نقصانات کی تحقیقات سے متعلق وزیراعلی معائنہ ٹیم کے رکن کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کردی ہے۔ شاہد رند نے بتایا کہ کمیٹی اربن فلڈنگ کی وجوہات کے بارے میں تحقیقات کر کے حقائق معلوم کرے گی اور خامیوں کی نشاندہی کرے گی جن کے باعث کوئٹہ شہر میں اربن فلڈنگ ہوئی۔
کمیٹی شال شہر میں سڑکوں اور سیوریج سے متعلق ایسے تمام ترقیاتی منصوبوں کا معائنہ کرے گی جو گذشتہ تین برسوں کے دوران مکمل کیے گئے ہیں اور ڈیزائن میں خرابی کی وجہ سے مدت تکمیل سے پہلے ہی ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں یا بری طرح خراب ہو گئے ہیں۔
ترجمان بلوچستان حکومت نے مزید بتایا کہ کمیٹی مستقبل میں کوئٹہ شہر میں اربن فلڈنگ کو روکنے کے لیے اقدامات بھی تجویز کرے گی کمشنر شال ڈویژن حمزہ شفقات کا کہنا ہے کہ شہر میں برساتی نالوں پر تجاوزات کی وجہ سے پانی اوور فلو ہو کر سڑکوں اور گھروں میں داخل ہوجاتا ہے۔ان کے مطابق شہر کے 82 برساتی نالوں کی چوڑائی 40 فٹ کے بجائے صرف 20 فٹ رہ گئی ہے۔ تجاوزات کے خلاف کارروائی ہی اربن فلڈنگ سے بچنے کا واحد حل ہے۔
محکمہ موسمیات شال مرکز کے ڈپٹی ڈائریکٹر مختار احمد مگسی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حالیہ بارشیں معمول سے کئی گنا زیادہ ہیں۔اپریل میں شال میں بارشوں کا اوسط 15 ملی میٹر رہتا تھا، تاہم صرف 12 سے 14 اپریل کے دوران 71 یہاں ملی میٹر بارش ہوئی جو معمول سے تین سے چار گناہ زیادہ ہے۔اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان بارشوں سے زیرِزمین پانی کی سطح کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ زیادہ تر پانی سیلابی ریلوں کی صورت میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔
مختار احمد مگسی کے مطابق پہلے ان مہینوں میں آہستہ آہستہ بارشیں ہوتی تھیں جو زیرِزمین پانی کو ری چارج کرتی تھیں، اب مہینہ بھر کی اوسط بارش سے زیادہ ایک دن میں ہوجاتی ہے۔ اس طرح نہ صرف سیلابی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے بلکہ فصلوں اور انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات ہیں۔
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ 16 اپریل کی رات سے بارشیں برسانے والا مغربی ہواں کا ایک اور طاقتور سلسلہ بلوچستان کے مغربی علاقوں گوادر اور کیچ میں داخل ہورہا ہے جو 17 اپریل کو بلوچستان بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لگا اور 18 اپریل تک ملک کے باقی تینوں صوبوں اور پھر گلگت اور کشمیر تک پھیل جائے گا۔
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا کہ 16 سے 19 اپریل کے دوران بلوچستان کے ضلع نوشکی، خاران، چاغی، مستونگ، قلات، خضدار، آواران، کیچ، گوادر، بارکھان، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، سبی، ہرنائی، جھل مگسی، نصیرآباد، قلعہ سیف اللہ، شیرانی، موسی خیل اور زیارت میں گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارشیں متوقع ہیں جس کے نتیجے میں بعض علاقوں میں سیلابی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔پی ڈی ایم اے نے تمام کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کی ہیں جبکہ شہریوں کو غیر ضروری سفر کرنے سے گریز، سیلابی ریلوں اور آسمانی بجلی سے محفوظ رہنے کے لیے حفاظتی تدابیر پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔محکمہ ماہی گیری نے گوادر کے ماہی گیروں کو 17 اور 18 اپریل کو گہرے سمندر میں جانے سے گریز کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
دالبندین این ایچ اے کی N-40 شاہراہِ ٹوٹ پھوٹ کا شکار مسافروں کو دوران سفر سخت مشکلات کا سامنا۔تفصیلات کے مطابق شال تا تفتان نیشنل ہائی وے کی این 40 بین الاقوامی شاہراہِ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بن گیا بالخصوص لکپاس تا دالبندین اس شاہراہِ پر سفر کرنا بالکل دشوار بن چکا ہے شاہراہِ پر جگہ جگہ سے بڑے کھڈے بن چکے ہیں۔
دوسری جانب این ایچ اے کے اعلی آفیسران کی ملی بھگت سے اپنے من پسند افراد کو ٹھیکے دیئے جاتے ہیں بعض اوقات این ایچ اے کے آفیسران خود بھی ٹھیکوں اور بندر بانٹ میں شریک رہتے ہیں جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے عرصہ دراز سے اس اہم شاہراہِ پر معمولی سا کام نظر نہیں آتا جبکہ کاغذی کاروائی میں یہ شاہراہِ موٹر وے جیسی شاہراہِ سے نظر آتی ہے شاہراہِ کی خستہ حالی کے سبب ٹریفک حادثات روز کا معمول بن چکے ہیں جس سے گذشتہ چند ماہ کے دوران کئی قیمتی جانیں لقمہ اجل بن گئی ہے ۔
دالبندین سمیت کوئیٹہ تفتان کے ٹرانسپورٹرز مسافروں اور عوامی و سماجی حلقوں نے این ایچ اے این 40 کوئیٹہ تفتان بین الاقوامی شاہراہِ کی خستہ حالی شاہراہِ کی تعمیر و مرمت میں تاخیر ٹھیکوں میں من پسند افراد کو نوازنے اور متعلقہ آفیسران کی ملی بھگت و بندر بانٹ کے خلاف شدید احتجاج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکام بالا نے اس اہم شاہراہِ پر آفیسران کی بندر بانٹ کا نوٹس نہ لیا تو عوام سراپا احتجاج بنیں گے جس کی تمام تر ذمہ داریاں متعلقہ حکام پر عائد ہوں گی۔
کچھی انتظامیہ کچھی کی جانب سے حالیہ بارشوں کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال پر کڑی نظر مختلف علاقوں بالخصوص ناڑی ہیڈ ورکس کے مقام سے گزرنے والے سیلابی ریلے جس سے مختلف دیہاتوں کو خطرہ لاحق ہے کہ حوالے سے انتظامیہ نے غیر معمولی انتظامات اٹھارکھے ہیں۔ اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر کچھی کیپٹن ریٹائرڈ جمیل احمد بلوچ کی خصوصی ہدایت پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کچھی(ر) عبدالستار مینگل نے تحصیل بھاگ کے ملحقہ علاقوں کا دورہ کیا۔
اس موقع پر چیئرمین میونسپل کمیٹی بھاگ مفتی کفایت اللہ،تحصیلدار بھاگ موٹن خان پہوڑ،ایس ایچ او لیویز تھانہ بھاگ غوث بخش چھلگری،ہیڈ محرر مہیم خان مستوئی دیگر ہمراہ تھے انہوں نے بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال گزرنے والے سیلابی ریلے کاجائزہ اور تحصیل کے مختلف مقامات کا تفصیلی معائنہ کیا انکا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے پیشگی الرٹ جاری ہونے کے سبب ضلعی انتظامیہ کچھی ڈپٹی کمشنر کچھی کیپٹن ریٹائرڈ جمیل احمد بلوچ کی احکامات کے مطابق ہر طرح سے الرٹ ہے ، لیویز فورس کے جوان کسی بھی سیلابی صورتحال سے پیدا والے والے حالات کیلئے مکمل تیار ہیں ضلعی انتظامیہ کچھی نے پہلے ہی سے سیلابی ریلے کے متصل دیہاتوں گا¶ں کو پیشگی اطلاع دی ہے تاہم کسی بھی ممکنہ سیلابی صورتحال خطرے کے پیش نظر لیویز فورس کچھی عوام الناس کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے تمام وسائل کو بروئے کار لائے گی۔
شال ، ہرنائی ٹو سبی ریلوے ٹرین کی پٹڑی سیلاب میں بہہ گئی۔ حکومت پاکستان اور محکمہ ریلوے کی جانب سے اس پٹڑی پر خرچ ہونے والے اربوں روپے سیلاب کی نذر ہوگئے۔ محکمہ ریلوے نے ہرنائی ٹو سبی ریلوے ٹرین کی پٹڑی کو ندیوں کے کناروں پر تو بچھایا۔ لیکن اس پٹڑی کی حفاظت کے لئے ندیوں کے کناروں پر حفاظتی بندات نہیں بنائے۔ حالانکہ اس حوالے سے کئی مہینے پہلے ہرنائی کی میڈیا پر اس کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔ لیکن پھر بھی اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دیا گیا۔ جس کی وجہ سے آج اس پٹڑی کا یہ ہوا حال ہوا ہے۔ اور ہرنائی ٹو سبی ریلوے ٹرین مسلسل ایک ہفتے سے بند ہے۔ اور پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا وفاقی حکومت اور محکمہ ریلوے کے اعلیٰ حکام اس کی انکوائری کریں۔ اس غفلت میں ملوث بندوں کے خلاف فوری کارروائی کریں۔ اور ہرنائی ٹو سبی ریلوے پٹڑی کو سیلاب سے بچانے کے لئے ندی میں ایمرجنسی بنیادوں پر حفاظتی بندات تعمیر کریں۔ علاوہ ازیں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی کارکردگی، عارضی طور پر بنایا جانے والا مستونگ روڈ بائی پاس آج بارش کے بعد پھر بہہ گیا، ٹریفک کی روانی معطل، تمام گاڑیاں براستہ سنگر جارہی ہیں۔