بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے سوشل میڈیا اکاﺅنٹ پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بدقسمتی سے بلوچستان میں قتل و غارت کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، جس میں مزید لوگوں کو زبردستی لاپتہ کیا جا رہا ہے۔
بلوچ خاتون رہنماء نے کہا ہےکہ جب سے ہمارا احتجاج 23 نومبر کو شروع ہوا ہے، درجنوں لاپتہ ہو چکے ہیں، اور دسمبر اور جنوری میں اسلام آباد تک ہمارے مارچ کے دوران ہمارے ساتھ شامل ہونے والوں کو حراساں، جبری لاپتہ کرنے دباؤ ڈالنے علاوہ بلیک میل کیاجارہاہے ۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ احتجاج کے بعد ابتک درجنوں ایسے افرااد جبری گمشدگی کا نشانہ بنے ہیں جو بلوچ نسل کشی مارچ کا حصہ تھے جن میں گلخان شکاری، میران شکاری اور زاہد ولد اختر محمد، مستونگ سے عامر بلوچ شامل ہیں-
انہوں نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے ان قتل و غارت گری کی خبریں خاموشی سے دفن ہیں کسی کو گرفتار یا قانونی طور پر مقدمہ نہیں چلایا گیا ہے اس کے بجائے، افراد کو زبردستی غائب کر دیا جاتا ہے اور پھر جعلی مقابلوں میں مار دیا جاتا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے حالیہ جبری گمشدگیوں کے حوالے مزید کہاہے کہ انتخابات کے بعد ملک کے سیاست دانوں میں اقتدار کی کشمکش کے درمیان وہ مرنے والوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی حالت زار سے لاتعلق رہتے ہیں۔