جان محمد دشتی بلوچوں میں واحد بیوروکریٹ ہیں، جو وقت آنے پر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں، سامنے لومڑی کی طرح ہیں اور پیچھے شیر کی طرح حملہ کرنے کے ماہر ہیں۔ اِن کی بیوروکریٹک فنکاری ، سازشی زہینت، اقربا پروری اور مکاری سے ہر زی شعور شخص واقف ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر کی پوزیشن سے لیکر سیکریٹری کی پوزیشن تک اِس بندے نے جو گُل کھلائے ہیں وہ سب کے سامنے روزروشن کی طرح عیاں ہیں۔ایک زمانے میں اِن کا کہناتھا کہ بیوروکریسی صرف اُنہی کی فیملی لیے ہے، بلوچستان کے باقی سارے بلوچ ڈفر، نالائق اور جاہل ہیں ۔ لیکن اُس کو یہ نہیں پتا تھا کہ ہر بلوچ تعلیم یافتہ بنے گا اور اُس کی یہ اجاراہ داری چِھن جائے گی۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب جان محمد دشتی ڈپٹی کمشنر تھے اور میں اُس کے ماتحت تھا اور اسٹنٹ کمشنر کی پوزیشن پر کام کررہا تھا، وہ مجھ سے بے اِنتہا خار کھاتے تھے۔ میرے کام کو ہمیشہ ڈِس رگارڈ کرتے تھے اور چھوٹی سی بات پر میری انسلٹ کرتے تھے۔
چلیں اِن کے کچھ کرتوت اُن لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں جو اِس شخص کو مُرشد سمجھتے ہیں۔
جب یہ گوادر میں ڈپٹی کمشنر تھے، تو گوادر کی ساری زمینیں اپنے ، اپنے رشتہ داروں اور مُریدوں کے نام اِلاٹ کروا دیں۔گوادر میں جب سی پیک کے نام پر شوشا چل پڑا تو اِس بندے نے اربوں روپے کی زمینیں بیچ دیں،۔تُربت، کوئٹہ ، کراچی ، مسقط اور لندن میں اپنے بھائی، بھتیجے، بھانجے اور کزن کے نام پر بنگلے خریدے، جن کی مالیت کروڑوں ڈالر تک ہے۔اِس کے علاوہ دشت میرانی ڈیم کے قرب ءُ جوار کی زمینیں غریب عوام کی ملکیت تھیں جو تین ہزار ایکڑ نفوس پر مُشتمل تھیں۔
فرنٹیرکور کو بیچ دیں، جس سے جان محمد دشتی کو اربوں روپے مفت میں ہاتھ آئے۔ آج اُس زمین پر ایف ۔سی کا کینٹ بنا ہوا ہے{ جن کو معلوم نہیں وہ معلومات کرواسکتے ہیں}۔ اِس دوران جان محمد دشتی عوام الناس کے سامنے سیاسی نعرے لگاتے رہے کہ بلوچ اپنی زمینیں نہ بیچیں۔ انہی نعروں کی وجہ سے یہ بندہ ہیروبنتا گیا ۔ تربت اور گوادر کے باسیوں کے ہاں کوئی زمین نہیں تھی، اُن کے پاس وہی زمینیں تھیں جہان پر وہ رہ رہے تھے۔ بحرحال جان محمدد شتی جیسے پاکستان نواز بیوروکریٹ ، سیاسی مکّار اور اقربا پرور کا بلوچ عوام سے سرے سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔
یہ وہی جان محمد دشتی ہیں، جو ایک لمبے عرصے تک اخباروں اور رِسالوں میں ملٹری اینٹلجنس{ ایم۔آئی } کا ایجنٹ اور آلہ کار بن کر سردار عطاء مینگل کے سیاسی نظریات کے خلاف فیک نام اِستعمال کرکے لکھتے رہے تاکہ بلوچستان میں شعوری سیاست اور حق خود ارادیت کو گزند پہنچے۔ جب وہ مکمل طورپر ناکام رہے تو اُس نے سردار عطاء اللہ مینگل کے بیٹے سردار اختر مینگل سے سیاسی وابستگی اختیار کرلی۔ چونکہ اُس کے پاس سرکاری ایجنڈا تھا اِس لیے اُس نے سردار اختر مینگل جو اِس وقت بلوچوں کے ایک قد آوراور طاقتورسردار کی حیثیت رکھتے ہیں، اور بیشتر بلوچوں کی اُمیدیں سردار اختر مینگل سے بندھی ہوئی ہیں، سیاسی گزند اور کردارکشی کرنے کی ٹھان لی۔
جان محمد دشتی کا یہ خیال تھا کہ سردار اختر مینگل کی موجودہ حکومت کے ساتھ وابستگی اُس کے لیے گَنج ِ قارون ثابت ہوگی، اُس کے اور اُس کی فیملی کے لیے مراعات اور عیاشیوں کے دروازے کُھلیں گے، پورے بلوچستان پر اُس کی اِجارہ داری ہوگی، ہر کام کرنے سے پہلے سردار اُس سے مشورہ لے گا، اور اُسے بلوچستان کا سب سے بڑا ادبی اور سیاسی دانشور سمجھا جائے گا۔ اُس کی ہر بات بِلا چون و چرا مان لی جائے گی۔ اُس کی فیملی کے سارے بندے سکریٹریٹ اور وزیر اعلی ٰ آفس میں موجود ہونگے اور اُس کی اتنی طاقت ہوگی کہ وہ جب چاہے حکومت کا تختہ اُلٹوا سکتا ہے، لیکن جان محمد دشتی شاید خواب خرگوش میں تھے کہ نہ حکومتی اِدارے اُس کے اِشارے پر چلتے ہیں اور نہ ہی سردار اختر مینگل۔
اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو سردار اختر مینگل جان محمد دشتی کے مُحسن اعلیٰ ہیں۔تین دہائی پہلے جان محمد دشتی جب سردار عطاء اللہ مینگل کو فیک نام سے گالیاں دے رہے تھے تو اُس کے بیٹے اختر مینگل جب وزیر اعلیٰ بنے تو اُس نے جان محمد دشتی پر انعام و اِکرام کی بارش کردی۔ اُس کو اچھی پوزیشن اور عہدے دیے، اُس کی خوب پزیرائی کی اور اُسے بلوچ دانشور گردانا۔ لیکن جان محمد دشتی پوزیشن اور پیسوں کی ہوس اور لالچ میں اتنے مغرور ہوگئے کہ ہر بلوچ دانشور اور ذی شعور اِنسان کے خلاف سازشیں کرتے رہے۔ اُس نے سکریٹریٹ میں موجود کافی بلوچ سکریٹریز کو سزائیں دِلوائیں اور نیشنلزم کا کارڈ استعمال کیا۔ دِن کے ٹائم لوگوں کے سامنے بلوچ نیشنلزم کی باتیں کرتے رہے اور شام کے ٹائم اپنے آقاوں تک باتیں پہنچاتے رہتے۔
سردار اختر مینگل نے بلوچی اکیڈمی کی زمین خرید کر بلوچی اکیڈمی کی بلڈنگ اِس قومی سوچ کے تحت بنوادی کہ سارے بلوچ دانشور اِسے اپنا قومی اِدارہ سمجھیں گے اور مستقبل میں بلوچوں کے اتحاد ویگانگت، علمی اورفکری سوچ کی ترقی میں یہ اِدارہ مددگار ثابت ہوگا۔ یہیں سے بلوچی زبان کو ترقی ملے گی۔ اچھے دانشور اور لکھاری پیدا ہونگے۔ سردار مینگل نے بلوچی زبان ، ثقافت ، تاریخ اور قومی سوچ کو ترقی دینے والا اِدارہ ایک ایسے شخص کے حوالے کیا ، جو آستین کا سانپ نکلا۔ اِس شخص کو نہ بلوچی زبان سے محبت ہے اور نہ بلوچوں سے۔ یہ چوبیس گھنٹے بلوچوں کا مذاق اُڑاتا ہے اور مذاق اُڑانے میں اِسے خوشی ملتی ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اِس بندے نے بلوچی اکیڈمی کو یرغمال بنا رکھا ہے۔60 فیصد ممبر اِس کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو نہ بلوچی لکھنا جانتے ہیں اور نہ پڑھنا، 20فیصد بیوروکریٹ ہیں، جن کا بلوچی زبان سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ 10فیصد وہ چمچے ہیں، جو جان محمد دشتی سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اُن کے بچوں ، بھائیوں یا بیویوں کو نوکری ملے گی، کیونکہ دشتی فیملی اچھی پوزیشنوں پہ ہے تو وہ اُن کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔اور 10 فیصد ایسے لوگوں کی ہے جو چائے ، کھانا اور دوسروں کو گالیاں دینے اکیڈمی جاتے ہیں، اور جناب والا اُن کی گالیوں کو سُن کر اِنجوائے کرلیتا ہے۔
جان محمد دشتی کی نظر میں واجہ عبداللہ جان جمالدینی، میرعاقل خان مینگل، میر گل خان نصیر، سردارخان گشکوری، آغا نصیر خان احمدزئی اور پروفیسر صبادشتیاری بلوچ قوم کے دانشور اور ادیب نہیں بلکہ فراڈ ہیں۔ اِس شخص کو ہر اُس شخص سے نفرت ہے جو عالم، دانشور اور سیاسی شعور رکھتا ہو۔
نوجوانوں کو شاید یہ پتہ نہ ہو کہ بی۔ایس۔او کے اندر دراڑ پیدا کرنے میں سب سے زیادہ ہاتھ جان محمد دشتی ہی کا ہے۔ یہ شخص شروع دِن سے بی۔ایس ۔او کے خلاف تھا۔ بلکہ عمررسیدہ اور دشت کے معتبرین شخصیات سے اگر پوچھا جائے تو یہ بات عیاں ہوگی کہ جان محمد دشتی شہید حمید بلوچ سے بہت نفرت کرتے تھے۔ لیکن اب چونکہ حالات بدل چُکے ہیں تو شہید حمید کا نام کیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جان محمد 1988 سے لیکر 2000ء تک بلوچ اِسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، سردار عطاء اللہ مینگل اور دوسرے بلوچ دانشوروں کے خلاف فیک نام سے کُھلم کھُلا لکھتے رہے اور دراڑ پیداکرتے رہے۔ یہ شواہد آپ کو " ماہتاک بلوچی ، کوئٹہ، آساپ اور دوسرے میگزینز میں ملیں گے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ اِس شخص کی اصلیت کو پہچانیں اور اِے بلوچ دانشور گرداننے سے اِنکار کریں، کیونکہ کے اِس کے عزائم بلوچ قوم اور بلوچ کاز کے خلاف ہیں۔ یہ بندہ نرگسیت کا شکار ہے، خودپسند ہے اور اقرباء پرور ہے، اِس کا قومی ترقی سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ اگر اِس شخص کا قوم سے کوئی واسطہ ہوتا تو یہ ایک دِن اِسٹیج پہ آکر اچھی تقریر کرتا اور قوم کو یقین دِلاتا کہ میں سیاستدان اور دانشور ہوں۔
اِس بندے نے کبھی بھی کسی اِسٹیج پہ آکر نہ کوئی علمی اور نہ ہی کوئی سیاسی بات کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ نہ علمی بندہ ہے اور نہ ہی سیاسی۔ یہ سازشی بندہ ہے جس کا کسی سیاست، قوم اور علم و ادب سے تعلق نہیں۔
جب امیرالملک مینگل بلوچستان کے گورنر بنے تو جان محمد دشتی نے ملٹری اینٹلجنس کو خط لکھا کہ یہ سرمچاروں کا بندہ ہے، اِس لیے اِس کا گورنر بننا خطرناک ہے۔ ٹھیک اِسی طرح سرمچاروں کے نام خط لکھا کہ امیرالملک سرکار کا جاسوس ہے، اِسے کسی صورت چھوڑنا نہیں ہے اور گورنرشپ کے عہدے سے استعفیٰ دِلوانا ہے ، کیونکہ یہ بلوچوں کے لیے زہر قاتل ہے۔
حُسن اِتفاق یہ ہے کہ ایک دِن میں امیرالملک مینگل کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا تو اُس نے مجھے یہ دونوں خطوط دکھائے۔ دونوں خطوط پڑھ کر میں دَنگ رہ گیا۔ دونوں کی رائیٹنگ ایک جیسی تھی، نام قلمی تھا۔ امیر نے مجھے بتایا کہ یہ جان محمد دشتی کے کرتوت ہیں۔ کیونکہ وہ کافی عرصے سے اپنے آقاوں کو خوش رکھنے کے لیے میرے خلاف لکھ رہے ہیں، جونئی بات نہیں ہے۔ اِس سے پہلے وہ اپنے محسنوں کے خلاف لکھتے رہے ہیں۔
یہ بندہ اپنے ایک اور مُحسن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے خلاف بولتے ہوئے نہیں تھکتے۔ ڈاکٹر مالک نے اپنے دور حکومت میں اِس شخص کو نوازا اور اِس کو بڑی عزت دی۔ اِن کے کہنے پر بلوچی، براہوی اور پشتو اکیڈمیوں کا سالانہ گرانٹ پچاس لاکھ سے بڑھا کر ڈیڑھ کروڑ کردیا، جو ڈاکٹر مالک کی قوم دوستی اور وطن دوستی کا مظہر تھا۔ گرانٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ بلوچی اکیڈمی کو دوسرے پرجیکٹس کے لیے بھی لاکھوں کے حساب سے فنڈز دیے جو جان محمد دشتی اور اُس کے حواریوں نے ہڑپ کرلیے۔ ڈاکٹر مالک نے بلوچی اکیڈمی کی ساکھ بڑھانے کے لیے 2014 میں سرشاعر میر گل خان نصیر کی یاد میں ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کروایا ، جس سے بلوچی اکیڈمی کی ساکھ کو تقویت پہنچی۔ لیکن بعد میں جان محمد دشتی ہر مجلس میں ڈاکٹر مالک اور نیشنل پارٹی کے خلاف بولتے رہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ڈیڑھ کروڑ گرانٹ لینے والی اکیڈمی ڈیڑھ روپے کا اچھا کام نہیں کرسکی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ پیسوں کا بندربانٹ ہوتا ہے، اورصرف چمچوں کی جیبیں بھر جاتی ہیں۔ سارے کام دشتی کے اِشاروں کے بغیر ممکن نہیں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ ایک قوم دوست اور ادب دوست اِنسان ہیں،اور بلوچی زبان میں افسانے لکھتے رہتے ہیں ، اِس لیے وہ قومی اور ادبی کاموں پہ خرچ کرنا چاہتے ہیں۔
جان محمد دشتی کہ کہانی یہاں پہ اچانک اِک ٹوئسٹ لیتی ہے، جس سے لوگ دَنگ رہ جاتے ہیں۔ اُس کی یہ کہانی لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے، اُس کی اِس کہانی کے پیچھے کئی محرکات کارفرما ہیں جو اَ ب ظاہر ہونے لگے ہیں۔
چار دِن پہلے سرکاری ڈیتھ اِسکواڈ کے سرغنہ شفیق مینگل اور سردار اختر مینگل کے درمیان محازآرائی شدّت اختیار کرگئی تو عین اُسی وقت جان محمد دشتی کے اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے اور اخباروں کی زینت بنے۔ اِس کے پیچھے وہ محرکات ہیں جن کا جاننا بہت ضروری ہے۔ شایدیہ باتیں عام بلوچوں کی فہم سے باہر ہوں، لیکن جو جان محمد دشتی اور شفیق مینگل کے کرتوتوں سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ شفیق مینگل اور جان محمد دشتی شروع دِن سے پاکستانی ملٹری اینٹلجنس کے سرغنہ ہیں۔ شفیق مینگل چونکہ مذہبی زہنیت رکھتا ہے اِس لیے اُس کے اندر مذہبی رجحانات پروان چڑھا کر سرکار اپنے اہداف پورا کروانا چاہتی ہے اور جان محمد دشتی چونکہ بیوروکریٹ ہے اورعملی طورپر سازشی زہنیت رکھتا ہے اِس لیے اُسے بلوچوں کے اندر گروہ بندی، قبائلی معاملات میں دخل اندازی، بلوچوں کے اندر لِسانی تفریق، اور ادباء اور شعرا ء پر بے جا الزامات، اور بلوچ دانشوورں میں نفاق پیداکرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
حکومت پاکستان نے شفیق مینگل کو ڈیتھ اِسکواڈ کا سرغنہ بنا کر سراوان اور جھالاوان میں ہزاروں بلوچ شہید کروادیئے اور جان محمد دشتی کو سازشی دانشور بنا کر بی ۔این ۔پی کے اندر داخل کروا دیا تاکہ سردار اختر مینگل اور بلوچستان کی ایک منظم سیاسی پارٹی کو نقصان پُہنچ سکے، جس سے بلوچ مزید کسمپرسی کی حالت میں مبتلا ہوں اور دُشمنوں کو زیادہ فائدہ پُہنچے۔ اور اِس ناگفتہ بِہ حالت سے بلوچ قوم نکل نہ سکے۔
بلوچ قوم پہلے سے گوناگوں مُشکلات کا شکار ہے اور بلوچوں کی مُشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے شفیق اور جان محمد دشتی جیسے مُہر ے اب زیادہ سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔ بلوچ دانشور، ادباء اور تعلیم یافتہ لوگوں کو اِس حوالے سے سوچنا چاہیے اور اپنا مُستقبل ایسے ایجنٹوں کے ہاتھوں نہیں دینا چاہیے جس سے بلوچوں کو مزید نقصانات پُہنچ سکے۔
مزید برآں، یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ آنے والے الیکشنز میں جان محمد دشتی تُربت میں ناکامی کے ڈر سے بی ۔این ۔پی چھوڑ رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے اعلٰی عہدیداران کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ کیوں کہ اُس نے اپنے آقاوں سے رابطے کے بعد یہ طے کرلیا ہے کہ سارے سرکاری ڈیتھ اِسکواڈ کےسرغنے اِس وقت پیپلز پارٹی میں جمع ہیں تو پیپلز پارٹی اُن کے لیے بہتریں شلٹر ثابت ہوسکتی ہے۔ وہاں نہ الیکشن جیتنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی لوگوں سے رائے لینے کی ضرورت ۔ آسانی سے وزارت ملے گی اور زَرّکثیر کا امبار لگے گا، بدلے میں کام صرف یہ ہوگا کہ آقا جو کہیں گے وہی کرنا ہوگا۔