شال : حب سے گذشتہ چھ سالوں سے لاپتہ غلام مصطفیٰ کی بیٹی نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے شال پریس کلب میں پریس کانفرنس دوران کہاہے کہ بلوچستان کے ہر گھرانے کی طرح ہماری داستان بھی دردناک ہے۔ اس دوران غلام مصطفی کی بیٹی نے کہاکہ میں سمجھتی ہوں کہ میں پہلی بدنصیب ہوں جسے بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلی نے ایک خبر یا پیغام دی ہے، جسے میں میڈیا کے سامنے لانا ضروری سمجھتی ہوں۔
انھوں نے کہاکہ غلام مصطفیٰ ذات رخشانی، سکنہ گورجک، تحصیل مشکئے ضلع آواران 15 جنوری 2016 سے لاپتہ ہیں۔ مشکے گورجک میں 2009 اور 2010 میں فوج نے حملہ کرکے گھروں کو جلایا۔ وہ مسلسل فوجی آپریشنوں، گھروں کو جلانے اور خاندان کے افراد کو تنگ کرنے کے بعد مشکے سے حب چوکی ہجرت کرگئے۔ وہ یونین کونسل میں سیکریٹری کی حیثیت سے سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ اپنے علاقے کی ایک معتبر شخصیت، ٹھیکیدار اور ووٹ بینک کے مالک ہیں۔ وہ علاقے کے لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ آج ہم یہاں اس لئے اکھٹے ہوکر آپ سے یہ شئیر کرنا چاہ رہے ہیں کہ غلام مصطفیٰ کو پندرہ جنوری 2016 کی رات پاکستانی فوج، خفیہ اداروں اور سادہ لباس میں ملبوس کئی اہلکاروں نے ان کے گھر سے ان کے بھانجا عمر عطاء اور ایک قریبی رشتہ دار اعظم بلوچ کے ساتھ اُٹھاکر لاپتہ کیا۔
عمر عطا اور اعظم بلوچ کو شدید تشدد کرکے کئی مہینوں بعد چھوڑ دیا گیا، لیکن غلام مصطفیٰ تاحال لاپتہ ہیں۔ اس وقت ان کی عمر ساٹھ سال ہوگی اور ذیابطیس اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کا بھی شکار ہیں۔ یہاں میں واضح کروں کہ اعظم بلوچ شدید جسمانی اور ذہنی اذیتوں کی وجہ سے رہائی کے چند ہفتے بعد وفات پاگئے۔
انھوں نے کہاکہ غلام مصطفیٰ رخشانی کا کیس اقوام متحدہ کی Working Group on Enforced and Involuntary Disappearance میں جمع کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا نام پاکستان کی جانب سے قائم کردہ لاپتہ افراد کی کمیشن میں بھی درج ہے، جس کی سربراہی جسٹس اقبال کر رہے ہیں۔ ان کی جبری گمشدگی کو ساڑھے چھ سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا لیکن اس دوران ہمیں ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی گئی ہیں۔ گوکہ کچھ رہا ہونے والوں نے انہیں مشکے کی آرمی کیمپ میں دیکھا ہے لیکن وہ ڈر کی وجہ سے کھلی طور پر کوئی بھی بیان دینے سے گریزان ہیں۔
انھوں نے کہاکہ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران جب وزیر اعلی قدوس بزنجو کے بھائی جمیل بزنجو اور سابق ضلعی ناظم نصیر بزنجو نے مشکے اور خصوصا گورجک کے علاقائی معتبرین سے ووٹ مانگا تو علاقائی معتبرین نے اس شرط کے ساتھ ووٹ میں حصہ لیا اور ان کو کامیابی دلائی کہ وہ غلام مصطفیٰ کو رہا کروائیں گے۔
اس کے لئے وزیر اعلیٰ میر قدوس بزنجو کے بھائی جمیل بزنجو اور سابق ضلعی ناظم آواران نصیر بزنجو نے علاقائی معتبرین بلوچ خان، حاجی وارث، علی خان اور کئی دوسروں سے ملاقات کی اور یہی یقین دلایا کہ وہ غلام مصطفیٰ کی رہائی و بازیابی کیلئے کوششیں کریں گے۔
اس کیلئے ہمارے معتبرین کو سردار علی حیدر اور دوسرے علاقائی اثر ورسوخ رکھنے والوں کے سامنے کھڑا ہونا پڑا۔ اسی شرط پر بلوچ خان نے ان کیلئے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی کہ میر قدوس بزنجو اور نصیر احمد بزنجو غلام مصطفیٰ کو بازیاب کرائیں گے۔
انھوں نے کہاکہ اب جب حاجی وارث، بلوچ خان اور علی خان ان لوگوں یعنی وزیر اعلی بلوچستان قدوس بزنجو کے بھائی اور نصیر بزنجو سے ملے تو انہیں بتایا گیا کہ غلام مصطفیٰ دوران حراست تشدد کے دوران شہید ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ ساڑھے چھ سالوں سے انتظار کرنے پر ہمیں اس بات پر یقین نہیں ہو رہا کہ ہمارے بے قصور پیارے کو کس جرم میں ایسی تشدد کی گئی کہ وہ شہید ہوگئے۔ مگر ہمیں اس بات پر مکمل یقین نہیں کیونکہ پہلے بھی دوسرے کئی خاندانوں کو اس طرح کی جھوٹی خبریں دیکر جان خلاصی کی گئی ہے تاکہ وہ خاندان اس بارے میں خاموش رہے۔ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی یہی کیا جا رہا ہے۔ اگر انہیں شہید کیا گیا ہے تو وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو ہمیں اس کی نعش کو ڈھونڈنے میں پاکستانی فوج سے رابطہ کرائے۔
پریس کانفرنس دوران انھوں نے کہاکہ ہمارا خاندان کئی سالوں سے ایک کرب سے گزر رہا ہے۔ اس دوران غلام مصطفیٰ کی بہن اور بھانجیاں بھی ریاستی مظالم کا شکار رہی ہیں۔ کراچی میں ان کی بھانجی کے گھر پر فوج اور رینجرز نے چھاپہ مار کر ان کی بھانجی کو اپارٹمنٹ کی تیسری منزل سے نیچے گرایا جو آج بھی ریڑھ کی ہڈی میں تناؤ کی وجہ سے جسمانی کمزوریوں کا شکار ہیں۔
انھوں نے کہاکہ ان کی ایک بہن یہ صدمہ برداشت نہ کرکے خود انتقال پاگئیں۔ ہمیں آج تک کسی نے نہیں بتایا کہ ساٹھ سالہ غلام مصطفیٰ کا جرم اور قصور کیا ہے۔ علاقے میں چہ میگوئیاں ضرور سنی ہیں کہ مقامی ڈیتھ اسکواڈ نے ذاتی بغض و اغوا برائے تاوان کے غرض سے فوج کے ذریعے اسے اغوا کروایا۔ اس کے بعد اس کی کروڑوں کی جائیداد اور کار و بار پر قبضہ کی کوشش کی گئی۔
پریس کانفرنس میں کہاگیاکہ سابق سرمچار عیدو عرف ثناء نے ایک فوجی کرنل کا ریفرنس دیکر غلام مصطفیٰ کی ایک دس ویلر گاڑی کو رشوت کے طور پر لیکر غلام مصطفیٰ کی رہائی کا وعدہ کیا۔ اس وقت مارکیٹ میں اس کی قیمت ایک کروڑ روپے سے زائد ہے۔ عیدو عرف ثنا اور اس کا واقف کرنل وہ گاڑی بھی ہم سے لے گئے ہیں۔
اب ہم آپ کے ذریعے دنیا کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ غلام مصطفیٰ ساڑھے چھ سالوں سے جبری لاپتہ ہیں۔ آج ہمیں موجودہ وزیر اعلیٰ کے ذریعے جو خبر پہنچائی گئی ہے، اس کی تصدیق کرانا یا ہمارے پیارے کو بازیاب کرانے میں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔
انھوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ لوگوں کیلئے بہت سے مشکلات پیدا کی گئی ہیں لیکن اس مہذب پیشے تعلق کی وجہ سے ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس پیشہ کی لاج رکھ کر آپ ہماری آواز بنیں گے جو دنیا میں صحافی اور میڈیا ہاؤسز کی ذمہ داری ہے۔