فرانس کے ایئرپورٹ پر18 سال تک مقیم رہنے والے ایرانی شہری انتقال کر گئے



فرانس کے دارالحکومت پیرس کے ایئرپورٹ پر 18 برس تک مقیم رہنے والے ایرانی شہری ہفتے کو انتقال کر گئے۔


خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق مہران کریمی نصیری نامی شہری امیگریشن کی کوشش کے دوران دھوکہ دہی کا شکار ہو گئے تھے۔

وہ سن 1988 میں اپنی گمشدہ والدہ کی تلاش میں پہلے لندن اور پھر ایمسٹرڈیم گئے، لیکن سفری دستاویزات مکمل نہ ہونے پر اُنہیں بے دخل کیا جاتا رہا۔ لیکن پھر وہ فرانس کے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ پہنچے اور مہاجر کا درجہ ملنے کے باوجود وہ 2006 تک ایئرپورٹ پر ہی قیام پذیر رہے۔


سن 1945 میں ایران کے صوبے خوزیستان میں پیدا ہونے والے نصیری کی آپ بیتی سے متاثر ہو کر ہالی وڈ کے معروف ڈائریکٹر اسٹیون اسپلبرگ نے ‘دی ٹرمینل’ کے نام سے فلم بھی بنائی جس میں ٹام ہینکس اور کیتھرین زیٹا جونز نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔


اس فلم میں ٹام ہینکس نے ایک ایسے شخص کا کردار نبھایا جو امریکی شہر نیو یارک کے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر اس وقت پھنس گیا جب ان کے ملک میں آنے والے انقلاب کے باعث افراتفری پھیل جاتی ہے۔


ایئر پورٹ حکام نے بتایا کہ مہران کریمی نصیری کی موت چارلس ڈیگال ایئر پورٹ کے ٹرمینل ٹو ایف پر ہفتے کی دوپہر ہوئی۔


مہران اپنے آپ کو“سر الفریڈ”کہلاتے تھے اور ایئر پورٹ پر قائم لکڑی اور پلاسٹک کے بینچ ان کی آماج گاہ تھے۔


حکام کے مطابق کریمی فلم سے ملنے والی آمدنی کا بڑا حصہ خرچ کرنے کے بعد چند ہفتے قبل وہ ایئر پورٹ واپس آ گئے تھے۔


رپورٹس کے مطابق کریمی سے ہزاروں یوروز برآمد ہوئے ہیں۔

پیرس کے چارلس ڈیگال ایئر پورٹ پر کچھ رضا کاروں نے اُن کے لیے ایک اسپورٹ سسٹم قائم کر دیا تھا جس کے تحت انہیں کھانا، کتابیں اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتی رہیں۔


سن 1999 میں کریمی کو پناہ گزین کا درجہ ملنے کے بعد انہیں فرانس میں رہنے کا حق مل گیا تھا۔


لیکن پھر بھی اُنہوں نے ایئرپورٹ پر رہنے کو ہی ترجیح دی۔ لیکن بیماری کے باعث 2006 میں اُنہیں اسپتال منتقل کیا گیا، لیکن اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل وہ دوبارہ ایئرپورٹ پر آ بسے تھے۔



ناصری اخبارات اور رسائل کے ڈبوں سے گھری پلاسٹک کی سرخ بینچ پر سوتے تھے اور ایمپلائی فیسیلٹی میں نہاتے تھے۔


انہوں نے اپنا وقت ڈائری لکھنے، رسالے پڑھنے، معاشیات کا مطالعہ کرنے اور گزرنے والے مسافروں کا سروے کرنے میں صرف کیا۔


ائیرپورٹ کا عملہ انہیں ”لارڈ الفریڈ“ پکارتا تھا، اور وہ مسافروں کیلئے ایک مشہور شخصیت بن گئے تھے۔


اپنی بینچ پر ایک پائپ سگریٹ پیتے ہوئے، لمبے پتلے بالوں، دھنسی ہوئی آنکھوں اور کھوکھلے گالوں کے ساتھ کمزور دکھائی دے رہے ناصری نے 1999 میں دی ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ”ایک دن میں اس ہوائی اڈے سے نکل جاؤں گا، لیکن میں ابھی تک پاسپورٹ یا ٹرانزٹ ویزا کا انتظار کر رہا ہوں۔


ناصری 1945 میں ایران کے ایک حصے ”سلیمان“ میں پیدا ہوئے تھے جو اُس وقت برطانوی دائرہ اختیار میں تھا، ان کے والد ایرانی جبکہ والدہ برطانوی تھیں۔


انہوں نے 1974 میں انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایران کو خیرباد کہہ دیا۔


جب وہ واپس آئے تو ان کے مطابق انہیں شاہ ایران کے خلاف احتجاج کرنے پر قید کر دیا گیا اور پھر بغیر پاسپورٹ کے ملک بدر کردیا گیا۔


انہوں نے برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست دی، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔


بالآخر، بیلجیئم میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے انہیں پناہ گزینوں کی اسناد دیں، لیکن ناصری کے مطابق ان کا بریف کیس جس میں پناہ گزینوں کا سرٹیفکیٹ تھا، پیرس کے ٹرین اسٹیشن سے چوری ہو گیا تھا۔


بعد میں فرانسیسی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا، لیکن ان کے پاس کوئی سرکاری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کہیں ڈی پورٹ نہیں کر سکے۔ وہ اگست 1988 میں چارلس ڈی گال ائیرپورٹ پہنچے اور تب سے وہیں مقیم تھے۔


بیوروکریٹک ہنگامہ آرائی اور بڑھتے ہوئے سخت یورپی امیگریشن قوانین نے انہیں سالوں تک ”نو مینز لینڈ“ پر پھنسائے رکھا۔


ائیر پورٹ اتھارٹی کے اہلکار نے بتایا کہ جب بالآخر ناصری کو پناہ گزینوں کے کاغذات موصول ہوئے، تو انہوں نے ہوائی اڈے سے نکلنے کے بارے میں اپنی حیرت اور اپنے عدم تحفظ کو بیان کیا۔


مبینہ طور پر انہوں نے ان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور 2006 میں اسپتال میں داخل ہونے تک کئی سال اور وہاں رہنا پسند کیا، بعد میں وہ پیرس کی ایک پناہ گاہ میں رہے۔


ہوائی اڈے پر ان سے دوستی کرنے والوں نے بتایا کہ کھڑکی کے بغیر ایک جگہ پر برسوں رہنے سے ان ذہنی حالت متاثر ہوئی تھی۔


1990 کی دہائی میں ائیرپورٹ کے ڈاکٹر بھی ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے بارے میں فکر مند تھے۔


ٹکٹ ایجنٹ کے ایک دوست نے اس کا موازنہ ایک ایسے قیدی سے کیا جو ”باہر رہنے“ کے قابل نہیں تھا۔


اپنی موت سے چند ہفتوں قبل، ناصری واپس چارلس ڈی گال میں رہنے کے لیے چلا گئے تھے۔


ناصری کی اعصاب کو جھنجھوڑ دینے والی کہانی نے اسٹیون اسپیلبرگ کو فلم ”دی ٹرمینل“ بنانے پر مجبور کیا، جس میں ٹام ہینکس نے اداکاری کی تھی، نیز ایک فرانسیسی فلم ”لوسٹ ان ٹرانزٹ“ اور ”فلائٹ“ نامی ایک اوپیرا بھی ناصری کی زندگی سے متاثر ہو کر بنایا گیا تھا۔


دی ٹرمینل میں ہینکس نے وکٹر نوورسکی کا کردار ادا کیا ہے، ایک ایسا شخص جو نیو یارک کے جے ایف کے ہوائی اڈے پر فرضی مشرقی یورپی ملک کراکوزیا سے آتا ہے اور اسے راتوں رات ایک سیاسی انقلاب کا پتہ چلتا ہے، جس کے باعث اس کے تمام سفری کاغذات معطل ہوجاتے ہیں۔

ناوورسکی کو ہوائی اڈے کے بین الاقوامی لاؤنج میں بھیج دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسے اس وقت تک وہاں رہنا ہوگا جب تک کہ اس کی ملکی شناخت دوبارہ بحال نہیں ہوجاتی۔


نیو یارک ٹائمز کے مطابق، اسپیلبرگ نے اپنی پروڈکشن کمپنی ڈریم ورکس کے ذریعے ناصری کی زندگی کی کہانی کے حقوق تقریباً 250,000 ڈالر ادا کر کے خریدے۔


ناصری نے ایک سوانح عمری بھی لکھی جو ”The Terminal Man“ کے عنوان سے 2004 میں شائع ہوئی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post