کراچی پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4575 دن مکمل ہوگئے۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں پی ٹی ایم کمیٹی ممبر محمد شیر بادشاہ ، پشتون ماما حسیب اللہ اور جمال پشتین نے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اظہار یکجہتی کرنے والوں سے کہا کہ پشتون اور سندھ کی طرح بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں اپنے انتہاء کو پہنچ چکے ہیں بلوچستان کے اکثریتی آبادی والے علاقوں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے ، آئے روز فوجی کارروائیوں کے ذریعے آبادیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سات دہائیوں سے یہ عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور مردوں کے ساتھ خواتین کی بھی جبری گمشدگی معمول بنتا جا رہا ہے ان سے انسانیت کے علمبرداروں اور اسلامی ریاست کے دعویٰ داروں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مکران مشکے آواران سمیت دیگر علاقوں میں دوران آپریشن سیکیورٹی فورسز کی فضائی اور زمینی حملوں سے سینکڑوں بلوچ خواتین اور بچے شہید ہوئے ہیں جبکہ دوران آپریشن خواتین اور بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین پریس کلبوں کے سامنے روز مظاہرہ کرتے ہیں لیکن افسوس یہ بدقسمتی ماں بہنیں بلوچ ہیں شاید انسانی حقوق کی تنظیموں اور نام نہاد آزاد صحافت کرنے والوں کے لئے بلوچ بحیثیت انسان کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں پہلے بلوچ ماں بہنیں اپنے پیاروں کی گمشدگی کے کرب میں مبتلا تھے اپنے لخت جگروں کی مسخ شدہ لاشوں کو گود میں اٹھائے روتا اپنے آنسو خشک کر دیتے ہیں آئے روز پریس کلبوں کے سامنے اپنے فرزندوں کی تصاویر اٹھائے رکھے ہیں لیکن شاید اب بدقسمت ماں بہنوں کی تقدیر بدل گئی اب خود ریاستی ٹارچر سیلوں میں قید ہونے لگے ہیں۔