کل جب پنجگور سے ایک ماں اور بیٹی کی جبری گمشدگی، جنسی تشدد، اور پھر بیٹی کی موت کی خبر سامنے آئی، تو میں نے اسی متعلق سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا۔
آج اپنے اسی پوسٹ پر میں نے کمینٹس پڑھے ، کچھ لوگوں نے کہا “یہ جھوٹ ہے، یہ پروپیگنڈا ہے، یہ ریاست دشمن بیانیہ ہے۔
” کچھ لوگ سچائی کے ثبوت مانگ رہے تھے، کچھ لوگ گروک سے تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سچ جاننا چاہتے ہے تو ان سوالات سے میرے بھی ذہن میں ایک سوال ابھرا کہ سچ کیا ہے؟ اور سچ کس کا ہے؟
میشل فوکو کہتا ہے کہ سچ ہمیشہ طاقت سے بندھا ہوتا ہے۔ وہ محض کسی واقعے کی حقیقت نہیں، بلکہ ایک طاقتی ڈھانچے کی پیداوار ہے۔ یعنی جس کے پاس طاقت ہے، وہی یہ طے کرتا ہے کہ “سچ” کیا ہے، اور “جھوٹ” کیا ہے۔
اسی لیے ایک بلوچ عورت کی زندگی، اسکے ساتھ ہونے والے درندگی سب “جھوٹ” قرار پاتی ہے، اور ریاست جس کے پاس طاقت ہے اس کی کسی بھی نمائندے کی تردید “سچ” بن جاتی ہے۔
بلوچ چونکہ مظلوم ہے اور مظلوم کا سچ ظالم کے لیے کبھی سچ نہیں ہوتا، کیونکہ سچ صرف طاقت کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کو سمجھا جاتا ہے۔ وہ زبان جو ریاستی اداروں، میڈیا، اور نظامِ علم نے تشکیل دی ہے۔
فوکو کے مطابق یہ “regime of truth” ہے ، ایک ایسا نظام جو صرف طاقت کے دائرے میں موجود سچائی کو پہچانتا ہے، اور باقی سب کو خاموش کر دیتا ہے۔
ایڈورڈ سعید کے مطابق، طاقت صرف ہتھیار یا فوج نہیں، بلکہ علم اور بیانیہ بھی ہے۔ جس طرح مغرب نے مشرق کو “Orient” کے نام سے تعریف کر کے اسے ہمیشہ ایک غیر، کمزور، اور غیر متمدن وجود کے طور پر پیش کیا، اسی طرح پاکستانی ریاست نے بلوچ عوام کو شک، غداری اور بغاوت کے استعارے میں قید کر رکھا ہے۔
یہ وہی “استعماری بیانیہ” ہے جو مظلوم کے دکھ کو افسانہ بنا دیتا ہے، تاکہ طاقت کی برتری پر کوئی سوال نہ اٹھ سکے۔
پنجگور کی اس لڑکی کی کہانی ، جو ریاستی جبر اور سماجی خاموشی کے درمیان کہیں دفن ہو گئی ، صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک علمی، اخلاقی، اور فکری جنگ ہے۔
یہ اس سچ کی جنگ ہے جسے طاقت “جھوٹ” قرار دیتی ہے،یہ اس حقیقت کی جنگ ہے جو انتہائی قرب ناک و وہشت ناک ہوکر جھوٹ کے لقب میں دفن ہوجاتی ہے
بلوچستان وہ سرزمین ہے جہاں انٹرنیٹ بند ہے، بلوچ اپنی میڈیا سے محروم ہے، یہاں سچ بولنے والا یا تو غائب کر دیا جاتا ہے یا مار دیا جاتا ہے۔
یہاں “خبر” صرف وہی بن سکتی ہے جو طاقت کو راس آئے۔جو ریاستی بیانیے کو مقصود ہو، باقی سب جھوٹ ہے، چیخیں، آہیں، انتظار، آنسو، وہشت، سب جھوٹ ہے کیونکہ یہ طاقت کے زبان سے بیان نہیں ہورہے۔
بلوچستان کا سچ فوکوالٹین سچ ہے ، وہ سچ جو طاقت کے مقابل بولتا ہے، جو نظمِ علم کے خلاف مزاحمت کرتا ہے، جو غیاب میں موجود رہ کر بھی صداقت کی سب سے بلند صورت بن جاتا ہے۔اور یہ سعید کے استعماری تجزیے سے جڑا ہوا سچ ہے ، جو یہ یاد دلاتا ہے کہ ہر مظلوم قوم کی کہانی دنیا کے مرکز سے نہیں، بلکہ اس کے کناروں سے لکھی جاتی ہے۔
دنیا کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ بلوچ لڑکی کا دکھ کوئی محض “خبر” نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کے ساتھ روا رکھی جانے والی علمی، اخلاقی اور انسانی ناانصافی کی علامت ہے۔ طاقت کے اس شور میں مظلوم کی خاموشی ہی سب سے بڑا احتجاج ہے۔
اور آج اگر مظلوم کا سچ خاموشی کی تہوں میں دب گیا ہے، تو کل وہ احتجاج کی صورت میں ابھرے گا ۔ وہ احتجاج ایک مزاحمت بن کر جو کسی بھی صورت، کسی بھی آواز، اور کسی بھی شکل میں اپنا اظہار کرے گی۔ اس دن مظلوم کا سچ ایک گونج بن جائے گا ۔ ایسا شور جو فراموش نہیں کیا جا سکے گا
