کامریڈشوکت بلیدی بلوچ | کیفی راجپوت

 


شوکت بلیدی بلوچ ! یہ پہلی بار ہے کہ میں آپ کو آپ کے اصل نام سے مخاطب کر رہا ہوں ۔
3 اکتوبر کو اُس دن آپ آن لائن تھے، اور ہم پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں ہونے والے مظاہروں پر بات کر رہے تھے، جہاں فورسز نے کم از کم 12 بے گناہ شہریوں کو شہید کر دیاگیاتھا۔ لیکن عوام نے جس بیباکی اور جرأت کے ساتھ مزاحمت کی ،ایک قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔
آپ اس پہ اتنا خوش تھے کہ بار بار مجھے کہتے تھے پہاڑی فرزند جاگ اٹھی ہے اگر اس وقت ان کو شکست بھی ہو جائے تو بھی اب یہ مزاحمت کرنا بند نہیں کریں گے ،یہ بار بار اٹھیں گے بار بار لڑیں گے۔ یہ کوئی شام چھ بجے کے قریب آپ اچانک مجھ سے رابطے سے
غائب ہو گئے۔ میں نے بارہا آپ سے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ پھر رات تقریباً دو بجے، ایک انجانے نمبر سے ایک مختصر سا پیغام ملا — کہ آپ کی حالت نازک ہے، اور زندگی کی امید کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
اگلے دن، 4 اکتوبر 2025 کو، یہ دل دہلا دینے والی خبر ملی کہ آپ ہمیں چھوڑ چکے ہیں۔ یہ سانحہ میرے لیے بہت گہرا صدمہ تھا۔
میرے ذہن میں وہ سب ان گنت سال گردش کرنے لگے جو ہم نے ایک ساتھ گزارے ، جب ہم نے جدوجہد کے منصوبے بنائے، پالیسیاں مرتب کیں اور علاقائی آزادی کی تحریکوں کے درمیان باہمی اعتماد اور ہم آہنگی قائم کرنے کی سعی کی۔ جو کسی حد تک کامیاب بھی ہوئیں۔
آپ میں اور مجھ میں ایک چیز مشترک ہے ہم دونوں
پہاڑوں میں پیدا ہوئے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ خشک و سنگلاخ پہاڑوں میں، اور میں سبز، جنگلات سے بھرے پہاڑوں میں ۔ لیکن سب سے بڑا ہمارا مشترک دکھ یہ تھا کہ ہمارے دونوں کی زمین قبضے میں ہے ، اور ہم دونوں اس ظلم کے شکار ہیں۔
کامریڈ!آپ کو یاد ہو گا جب میں افتاد کا شکار تھا، مایوسی دکھ ،کرب اور اذیت کی ایک چادر تنی تھی ، اور کسی کو میری خبر تک نہ تھی، تو آپ پہلے شخص تھے جس نے مجھ سے رابطہ کیا، میری زندگی، میرے ساتھیوں اور میرے خاندان کے بارے میں فکرمندی ظاہر کی۔ میرے گھر کو جب بے توقیر کیا گیا تھا تو آپ نے ہی مجھے سب سے پہلے اطلاع دی تھی ۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب آپ نے پہلی بار ایک اہم اجلاس بلایا اور فیصلہ کیا کہ مجھے اس جگہ کو چھوڑ دینا چاہیے۔ میں اس فیصلے پر متفق نہیں تھا، لیکن آپ نے زبردستی میری سفری منصوبہ بندی کی، اور
میری حفاظت کو یقینی بنایا، یہاں تک کہ میں ایک محفوظ مقام تک پہنچ گیا۔
آپ کے دو قریبی ساتھیوں جن کے نام میں یہاں بعض وجوہات کے باعث نہیں لینا چاہتا ، نے نہ صرف عزت دی بلکہ ہر طرح میرا خیال رکھا ۔ آپ نے غربت، جلاوطنی اور خطرات جھیلے، مگر کبھی اپنی مشکلات میرے ساتھ بانٹیں نہیں۔ ہمیشہ مضبوط، باہمت اور ثابت قدم نظر آئے۔
آج میں اُس جدوجہد کو یاد کرتا ہوں جو ہم نے کی ، بلوچستان کی قومی آزادی کی تحریک اور جموں کشمیر کی تحریک کے درمیان باہمی ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے۔ آپ عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے، لیکن آپ کا وژن، آپ کا اندازِ قیادت اور آپ کی وابستگی مجھ سے کہیں آگے تھی۔ آپ ہی وہ شخص تھے جس نے مجھے بین الاقوامی اداروں سے روشناس کرایا،بندوبست کیا، مجھے اقوامِ متحدہ اور دیگر
عالمی اداروں سے جوڑا، اور مجھے مجبور کیا کہ میں دنیا کے سامنے اپنے لوگوں کا مقدمہ پیش کروں۔
کامریڈ! آپ کا بچھڑ جانا ایک زخم ہے، جو وقت کے ساتھ بھی شاید بھر نہ سکے مگر آپ کی جدوجہد، آپ کا خواب، اور آپ کی قربانی ہمیشہ زندہ رہے گی۔ آپ واقعی ایک انمول ساتھی تھے اور آج ہر چیزآپ کے بغیر بہت ادھوری ہے۔
٭٭٭

Post a Comment

Previous Post Next Post