اکثر لوگ اپنی سیاست ،کاروبار ،حکومت چلانے اور چمکانے کیلے وطن پرستی ،حب الوطنی کا چادر اوڑھ کر عظیم کرداروں کا مثال دے دیکر لوگوں کے جذبات سے کھلواڑ کرتے رہتے ہیں ،کوئی اپنے آپ کو لینن کے فلسفے کا داعی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی کارل مارکس کی معاشی تھیوری کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ،کوئی نام کمانے کیلے ڈاکٹر چے کا نام استعمال کرکے جہد کو بڑھاوا دینے کا راگ الاپتے ہیں ،مگر حقیقی اور عملی ،معنی میں وہ نہ لینن کے قومی یکجہتی کو اپناپاتے ہیں نہ ہی کارل مارکس کی معاشی تھیوری اور ڈاکٹر چے کے راہ پر چلنے کی اوقات رکھتے ہیں ،عملا کہیں وہ لینن کی جگہ اسٹالین،تو کہیں مارکس کی معاشی تھیوری کی جگہ امام بیل جیسے مافیا کی تھیوری اپناتے ہیں ،ڈاکٹر چے کے مسلح جہد بجائے ایک ڈکٹیٹر قاتل ،چنگیز خان ،تیمور لنگ،ہٹلر،پوٹین اور ٹرمپ جیسے نمک حرام بن جاتے ہیں ۔
ہم سوویت یونین کا مشاہدہ کریں لینن تھے ایک فرد مگر انھوں نے کم وقت میں سوویت یونین کو متحد رکھا،مارکس کی معاشی پالیسی اپنایا، مگر انکے بے وقت کی موت نے اسٹالین جیسے سانپ کو جنم دیا ،جو سوویت یونین کا شیرازہ بکھیرنے میں کوئی کثر نہ چھوڑی ،دشمن تو دشمن مثبت سوچ رکھنے والے اپنے ہزاروں ساتھیوں کو بھی نگل گئے ،ہر علاقہ میں جیل قائم کردیئے ہر تنقید کرنے مثبت سلاح دینے والے کی بات کا پتنگڑ بناکر ،نہ اپنا دیکھا نہ پرایا سب کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے ۔
آگے چل کر ملک کا شیرازہ ایسے بکھر گیا کہ آج پوتن جیسے مذہبی جنونی دنیا کیلے ناسور بن گئے ہیں، کسی کو مذہب کے نام پر تقسیم کرتے ہیں تو کسی کو ڈنڈے کے زورپر ہانکنے کی خواب دیکھتے ہیں ۔
اسطرح کیوبا کا انقلابی خاندان دنیا سامنے ہے سوشلسٹ کے نام پر ڈکٹیٹر بن کر اپنی عوام کو شمالی کوریا کی طرح کچل رہے ہیں ۔
باپ گیا بیٹا تخت پر بیٹھا ہے بیٹا جائے گا تو بیٹا ہی ڈکٹیٹر بن کر باپ کے نقش قدم پر چل کر عوام کو ریوڑ سمجھ کر ہانکتے رہیں گے۔
یہاں فرد کے کردار سے ہم بخوبی سبق حاصل کرسکتے ہیں کہ فرد اگر حقیقی خلوص نیت سے مثبت کی جانب قدم بڑھائیں گے تو حقیقی معنوں میں انقلاب لانے میں کامیاب ہوجائیں گےاور ،ملک قوم ملت کو متحد رکھنے میں کامیاب بھی ہونگے۔
اگر وہ بھیڑ کی بھیس میں بھیڑیا بن کر کسی تحریک ،ملک قوم کے جذبات سے کھلواڑ کرکے دوسروں کی کاندھے پر بٹھ کر اندر ٹرمپ کی طرح حکموت میں گھس جائیں گے تو انھیں نہ صرف قوم بلکہ دنیا بھی بدنامی ،وحشی ،ڈکٹیٹر ،ابن الوقت ،نمک حرام کے نام سے یاد ر کھیں گے۔
اگر بلوچستان کی بات کریں تو ایک طرف خان مھراب خان ،نوری نصیر خان ، نواب خیر بخش ،نواب اکبر خان ،عطاء اللہ خان ،غلام محمد بالاچ جیسے دیگر عظیم کردار ملیں گے ،دوسری جانب وطن فروشوں قاتلوں کی کھیپ ایک شفیق مینگل بجائے بیسیوں شفیق مینگلوں کی شکل میں مل جائیں گے ،جو وطن کے بچوں کو ،معاشی، ثقافتی،انقلابی ،مذہبی ،مافیا،کی مختلف شکلوں میں نگلتے رہتے ہیں ۔
اب فرد کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ حقیقی معنی میں خلوص نیت سے لینن ،کارل مارکس ،ڈاکٹر چے کے راہ پر چلکر ملک قوم کو متحد رکھنے کیلے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں یا ،چنگیز خان ،تیمور لنگ،ہٹلر ،پوتن، امام بیل،شفیق مینگل ،سرفراز بگٹی ،عبدالرحمن کھیتران ، ثناء اللہ زہری ،سائیکل چور علی مدد جتک جیسے اناڑی قاتل بن کر عوام کو تاریکی میں دکھیلتے ہیں ۔
تاریخ میں فرد ہی بہادر رانا پرتاب اور فرد ہی ڈرپوک جگ مال بنتے ہیں ۔فیصلہ آپ کو کرنا ہے شہیدوں کی خون سے وفاداری یا بےوفائی۔ تاریخ ہر حال میں آپ کو یاد رکھے گا یا تو شہیدوں کے وارث یا شہیدوں کے خون پر سیاست کرنے والے گد ،تاریخ انتہائی بے رحم ہے، وہ جہاں شہیدوں وہاں ہتھیار پھینکنے والوں کا حساب بھی رکھتا ہے ۔اگر آپ شہدا کے وارث بننے کا دعوی کرتے ہیں تو وہاں ہتھیار پھینکنے والے ہتھیاروں کا حساب بھی آپ کو دینا پڑے گا ۔
اس سے کوئی فرد مبرا نہیں ہوتا۔
