شہید نوراستمان میر نورالدین خان مینگل کی ناقابل فراموش سیاسی جدوجہد اور قربانیاں بلوچ قوم اور بلوچستانی عوام کے لیے مشعل راہ کی حثیت رکھتی ھے 13 اکتوبر 2025 کو شہید رہنما کی 15 ویں برسی نہایت ہی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی تحریر: غلام نبی مری سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی ممبر وضلعی صدر بی این پی کوئٹہ

 


محکوم اور مظلوم قوموں کی تحریکوں میں ایسے افراد کی قربانیوں اورجہد مسلسل کو صدیوں تک فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے جو ہمہ وقت اپنے نظریاتی سوچ اور فکرخیال کی وجہ سے قومی تحریکوں میں فعال کردار ادا کرتے ہیں اور تمام تر اذیتوں مشکلات تکالیف مسائل کا خندہ پیشانی مستقبل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ وقت او ر حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے متعین کردہ راستے سیاست نظریے سے ہٹنے اور سوچ میں تبدیلی لانے اور اصولوں پرسودا بازی کرنے کا تصور تک نہیں کرتے اوردنیا کی کوئی طاقت ان کے پر عزم خیالات وافکار نظریات اور سیاست کے راستے میں کوئی روکاٹ پیدا نہیں کرسکتی بلوچستان کی قومی تحریک شہداء کے قربانیوں سے بری پڑی ہیں جنہوں نے ہمیشہ مشکل اور سخت وقتوں میں اپنے مادر وطن کی مقدس مٹی کی حفاظت قومی تشخص کی بقاء سلامتی تہذیب و تمدن قومی ننگ و ناموس اور مثبت روایات کی بحالی ساحل وسائل پر اپنے دسترس مکمل حق حاکمیت وحق و اختیار حق حکمرانی انسانی مساوات سماجی انصاف کے حصول اور قومی جبر کیخلاف اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے قومی تحریکوں کیلئے ہمیشہ امر ہوگئے۔جنہوں نے قومی کاز اور اپنے آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کیلئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور تاریخ میں نام پیدا کیا ان رہنماوں میں سے ایک نام میر نورالدین مینگل کا ہے جنہیں 13اکتوبر 2010کو صبح بارہ بجے قلات میں نامعلوم افراد نے گھر کے سامنے فائرنگ کرکے شہید کیا وہ بی این پی کے مرکزی کمیٹی کے رکن اورایک معزز سیاسی قبائلی اور اعلیٰ تعلیمی یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ سیاسی تعلیمی اور قبائلی حوالے سے ان کی علاقے میں قومی خدمات ناقابل فراموش ہیں علاقے کا بچہ بچہ اور ذی شعور عوام بخوبی آگاہ ہیں۔ شہیدمیر نور الدین خان مینگل 1952کو بلوچستان کے تاریخی شہر قلات میں پیدا ہوئے وہ میر لعل بخش مینگل کے فرزند تھے انہوں نے ابتدائی تعلیم قلات سے حاصل کی میٹرک نوشکی سے ایف ایس سی سائنس کالج کوئٹہ سے اور 1970?کو لاہور سے مائننگ میں انجینئرنگ کی اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے کیا بی ایس او کے مرکزی وائس چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے طالب علمی کے دوران پنجاب میں بی ایس او کے16 یونٹوں کو نہایت ہی فعال اور متحرک کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد میرغوث بخش بزنجو مرحوم کی قیادت میں پاکستان نیشنل پارٹی(پی این پی)میں شمولیت اختیار کی۔کیونکہ نیپ پر پابندی عائد ہوچکی تھی محکوم قوموں کو اپنے قومی سیاسی جمہوری اور آئینی حقوق کی خاطر جدوجہد کرنے کیلئے کوئی اورسیاسی پلیٹ فارم دستیاب نہیں تھا۔ وہ پی این پی کے مرکزی نائب صدر اور مرکزی کمیٹی کے عہدوں پر فائز رہے۔پارلیمانی سیاسی جدوجہد کے سلسلے میں وہ پہلی مرتبہ 1988?کو پی این پی کے پلیٹ فارم سے قلات کے صوبائی اسبملی کی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور بعد میں (بی این وائی ایم)کے امیدوار پرنس آغا موسیٰ جان بلوچ کے حق میں الیکشن سے دستبردار ہوگئے 1990?کے الیکشن میں پی این پی کی طرف سے قلات کے صوبائی حلقے سے الیکشن میں حصہ لیا مگر کامیابی حاصل نہیں کی1996?ئ کو جب بی این ایم (مینگل) پی این پی(بزنجو)اور پی این پی (حکیم لہڑی) کا انضمام ہونے کو جارہا تھا۔ان پارٹیوں کوانضمام کرانے میں شہید میر نور الدین مینگل نے کلیدی کردار ادا کیا۔جب ان جماعتوں کے درمیان انضمام ہوا تو میر نور الدین مینگل عبوری مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر نامزد ہوئے اور وہ زندگی کے آخرایام تک بی این پی کی مرکزی کمیٹی کے عہدے پر فائز رہے۔شہید میر نور الدین خان مینگل کا شمار پارٹی کے تھنک ٹینک رہنماو¿ں میں سے ہوتا تھا۔ وہ بی این پی اور بلوچ سیاسی قومی تحریک کا ایک اہم سیاسی فگر تھے بے حد سلجھے ہوئے خوبصورت شخصیت انسان کے مالک تھے۔ ملکی اور بین لاقوامی سیاسی معاشی معاشرتی صورتحال اور آنے والی تبدیلیوں سے نمٹنے پر مکمل علم پر عبوراور گرفت رکھتے تھے۔ جب بھی پارٹی کی مرکزی کمیٹی (سی سی)کا اجلاس یا کوئی اہم میٹنگ ہوتی تو شہید میر نور الدین خان مینگل اپنی خدائے داد صلاحیتوں کی وجہ سے گھنٹوں گھنٹوں تک زیر بحث ایجنڈوں پر تفصیل اور دلائل کے ساتھ سیر حاصل گفتگوکرتے ہوئے دوستوں کی توجہ کا مرکوز ہوتے۔ جب سابق آمر پرویز مشرف کے دور حکومت میں بی این پی نے بلوچستان میں ہونے والے مظالم بلوچ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے بلوچستان میں پانچویں آپریشن،بلوچستان کے قدآورسیاسی و قبائلی رہنماء شہید وطن نواب اکبر خان بگٹی سمیت ہزاروں بلوچ فرزندوں کی شہادتوں ،سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ ، ماورائے آئین و عدالتی قتل و گرفتاریوں اور سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف بی این پی نے 2006?ئ میں یکم نومبر سے 31دسمبر تک گوادر سے کوئٹہ تک تاریخی پیدل لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ تو آمر پرویز کے (رجیم)بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر بلوچ وطن پر بلوچی راج انقلاب زندہ باد کے اس سیاسی تحریک کا سامنا نہ کرنے کی وجہ سے بی این پی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاو¿ن گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کردیا صوبے بھر میں بی این پی کے مرکزی قائد سردار اختر جان مینگل، سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی سمیت پارٹی کے مرکزی کابینہ مرکزی کمیٹی کے اراکین ضلعی تحصیل وارڈ عہدیداروں اور پارٹی کے سرگرم دوستوں کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کردیا۔ اور نیپ کے طرز پر ایک بار پھر بی این پی کو عملاً سیاسی جمہوری جدوجہد کرنے پر پابندی لگانے کا ایک طرح کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ پارٹی کے عہدیداروں کو گرفتارکرکے کراچی گوادرژوب مچھ لورالائی گڈانی، کوئٹہ اور صوبے کے دیگر جیلوں میں شفٹ کیا گیا ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے نیپ کے بعد ایک بار پھر بی این پی کو سیاسی اور جمہوری جدوجہد سے باہر کرنے کا عہد کرلیا ہے۔ بلوچستان بھر میں ایک بار پھر پارٹی کے نہتے سیاسی اور نظریاتی کارکنوں کی گھروں پر رات کی تاریکی میں پکڑ دھکڑچھاپوں اور گرفتاریوں کا نہ روکنے والا سلسلہ شدو مد کے ساتھ جاری تھا۔ اور اس دوران بی این پی کے سیاسی نظریاتی کارکن ان جاری ناروا پالیسیوں کے خلاف سراپااحتجاج کیلئے جب بھی صوبے بھرکے ضلعی ہیڈکوارٹر کے پریس کلبوں کے سامنے مظاہروں کیلئے جمع ہونا شروع ہوتے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اور فورسز پہلے ہی سے وہاں پر موجودہو کر پارٹی کارکنوں کو محاصرے میں لیکر خوف وہراس اور تشدد سے باز نہیں آتے تاکہ ظلم و ستم خوف وہراس کے ذریعے سے بلوچ قومی حقوق کے سیاسی تحریک سے وابستہ بی این پی کے سیاسی و نظریاتی سوچ سے لیس کارکنوں کو قومی تحریک کی جدوجہد سے دستبردار کرایا جاسکے اس دوران جب مرکزی سطح پر پارٹی کے چند دوست جو گرفتاریوں سے بچے ہوئے تھے انہوں نے میر نور الدین مینگل کو پارٹی کا مرکزی قائمقام سربراہ مقرر کیا۔تو شہید میر نور الدین مینگل نے پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے خوف و ہراس کے ماحول کو ختم کرنے اور سیاسی جمود کو تھوڑ نے کیلئے سیاسی میدان میں سرگرمیوں میں تیزی لائی اور اس دوران جب وہ 3جنوری 2007?ئ میں ممتاز بزرگ بلوچ قوم دوست رہبر سردار عطاء اللہ خان مینگل سے ملنے کیلئے قلات سے وڈھ جارہے تھے۔ تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے میر نور الدین مینگل اور ان کے ساتھ پارٹی کے مرکزی رہنماء ملک نصیر احمد شاہوانی،حاجی فاروق شاہوانی ودیگر ساتھیوں کو محاصرے میں لیکر خضدار کے مقام پر گرفتار کرکے شہید میر نورالدین مینگل کو 3روز تک خضدار کے سٹی تھانے میں رکھا اور بعد میں کوئٹہ کے بدنام زمانہ کرائم برانچ تھانہ شفٹ کرکے طرح طرح کی اذیتیں دی۔ تاکہ وہ بی این پی کو خیر باد کہہ دے یاسیاسی جدوجہد سے کنارہ کشی اختیارکرکے خاموشی اختیار کریں مگر اذیتیں اور شدید سردی کے باوجود ریاستی اذیتوں کا جوان مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے تمام تر ذہنی جسمانی صعبوتوں کے پروا کئے بغیر قوم اور وطن کی مہر وفا اور وابستگی جدوجہد کا خندہ پیشانی ثابت قدمی اور مستقبل مزاجی چلتن اور مہر داد پہاڑ جیسے پر عزم انسان شہید میر نورالدین مینگل کو آمر قوتیں بلوچ قومی تحریک اور بی این پی سے جدا کرنے بکنے اور خاموش کرانے کی اپنے عزائم میں مکمل طور پر ناکام رہے تو شہید میر نور الدین خان مینگل کو انگریز استمار کے بدنام زمانہ 16 اور3 ایم پی او ایکٹ کے تحت غیر سیاسی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے سے پابند سلاسل کرکے خضدار جیل شفٹ کیا جوکہ وہاں پہلے ہی سے بی این پی خضدار سوراب قلات گدرپارٹی کے کثیر تعداد رہنمائ اور کارکن مقید تھے اسیری کے دوران شہید میر نور الدین خان مینگل نے اپنی مدبرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خضدار ڈسٹرکٹ جیل کو ایک سیاسی تربیتی ادارے میں تبدیل کرکے پارٹی کے کارکنوں کو معروضی حالات اور واقعات بلوچ قوم اور بلوچستان کو درپیش سیاسی صورتحال پر سیاسی لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا۔کیونکہ سیاسی کارکنوں کیلئے جیل و زندان کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں اور وہ جیل کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔میر نور الدین مینگل کو دور طالب علمی سے اپنے وطن قومی حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے پر گہری لگن اور شوق تھا میر نور الدین مینگل کو ایک ایسے وقت میں شہید کیا گیا جب پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل شہید گل زمین حبیب جالب بلوچ کی شہادت کو ابھی تک تین مہینے بھی نہیں گزرے تھے بلوچستان کے عوام اور پارٹی کارکن اپنے عظیم سیاسی رہنمائ کی جدائی کے غم میں نڈھال اور پارٹی سوگ منانے میں مصروف عمل تھی کہ ایک ایسے وقت میں پارٹی کے دوسرے اہم سرکردہ رہنمائ میر نور الدین مینگل کو شہید کیا گیا تاریخ گواہ ہے کہ قومیں قتل و غارت گری ظلم و ستم قید و بند کی صعبوتوں سے ہرگز ختم نہیں ہوتیں بلکہ سیاسی رہنماو¿ں اور کارکنوں کی قومی تحریک کیلئے جدوجہد کی پاداش میں شہادتوں اذیتوں کا سامنا کرنے کی تکالیف کی رد عمل سے قومی تحریکوں کو تقویت ملے گی شہید میر نور الدین مینگل جیسے نڈر بلوچ فرزند قومی کاز کیلئے صدیوں میں پیدا نہیں ہونگے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ گذشتہ 21سالوں سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بی این پی کے کارکنوں کو سیاسی اور جمہوری قومی تحریک کی جدوجہد کے راستے سے ہٹانے کیلئے قتل و غارت گری کا نشانہ کیوں بنارہے ہیں کیونکہ بزرگ قوم وطن دوست وبی این پی کے رہبر عظیم بلوچ رہنمائ سردار عطائ اللہ خان مینگل گذشتہ کئی عشروں سے بلوچستان کی قومی مسائل جن میں گوادرمنصوبہ سی پیک ساحل وسائل پر بلوچوں کی حق حاکمیت کی حصول افغان مہاجرین کی انخلاء مردم شماری جاری آپریشن، لاپتہ بلوچ فرزندوں کی بازیابی،مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی،سیاسی کارکنوں کی قتل و غارت گری، ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں، سیندک ریکوڈک دودر، چمالنگ گڈانی پاور پروجیکٹس، اوچ پاور پروجیکٹ، سوئی سدرن گیس ،چھاونیوں کی قیام اور دیگر امور پر جو سیاسی اور جمہوری انداز میں سخت گیر اصولی موقف اپنایا ہوا ہے اسی کے نتیجے میں آج پارٹی کو دیوار سے لگانے اور پارٹی کی عوامی تائید و حمایت حق رائے دہی کو بلا جواز تسلیم نہیں کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان کا مسلہ سیاسی ھے جو کہ مذکرات گفت و شنید عملی اقدام اٹھانے ماضی کی پالیسیوں کو تبدیل کرنے جارحانہ روش اپنانے اور طاقت استعمال کرنے کی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ اور بااختیار قوتوں کی فہرست میں اس لئے بلوچستانی عوام کے ھر دلعزیز قومی نمائندہ جماعت بی این پی گڈ بکس میں شامل نہیں ہے جو اصولوں پر سودا بازی کرنے کی سیاست اور مصلحت پسندی پر یقین نہیں رکھتی ہے اور 2013?ئ کے عام انتخابات میں بی این پی کی عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل کی وڈھ کی آبائی نشست لیڈ جوکہ17 ہزاروٹروں پر مشتمل تھی 15دن تک بلا جواز غیر آئینی غیر جمہوری انداز میں نتائج روکا رکھاگیا اور صوبے کے دیگر علاقوں میں پارٹی کے کامیاب امیدواروں کو ناکامی میں تبدیل کیا گیاتاکہ بی این پی کی قیادت اپنے اصولی موقف سے ہٹ کر یہاں پر شروع ہونے والے میگا منصوبوں پرلچک پیدا کریں۔کچھ لو اور کچھ دوکے فارمولے کو پر عمل کرے۔اس کے مقابلے میں اقتدار ایسے لوگوں اور پارٹیوں کے حوالے کی گئی جنہوں نے قومی مفادات کی بجائے اپنے گروہی ذاتی مفادات پر مبنی مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں وزاراتیں اور مراعاتوں کے حصول پر مختص کرکے معاہدے کئے اور اقتدار پربراجمان رہے۔بلوچستان کے قیمتی اثاثوں ساحل وسائل کھوڑیوں کی قیمتوں میں فروخت کیا گیا میرٹ انصاف قانون تعلیم صحت و بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات سے بلوچستانی عوام آج بھی محروم ہے۔جس کی واضح مثال اقوام متحدہ کی جانب سے 2018ئ ? کی جاری کردہ عالمی رپورٹ میں بلوچستانی عوام اور بلوچستان کو دنیا کا سب سے پسماندہ غربت زدہ خطہ قرار دیا۔جبکہ قدرتی وسائل کے حوالے سے دنیا کا امیر ترین خطہ قراردیا گیا۔ یہ اکسیویں صدی کے دور میں حکمرانوں کا سب سے بڑا ناانصاف عمل ہے کہ دنیا کی امیر ترین سرزمین کے حقیقی وارث غریب ترین لوگوں کی فہرست میں شمارہوتے ہیں جوکہ حکمرانوں کے بدترین استحصال کی واضح ثبوت ہے۔شہید گل زمین حبیب جالب بلوچ، شہید میر نور الدین مینگل، شہیدمیر اسلم جان گچگی،شہید نواب امان اللہ خان زہری،ان کے فرزند شہید نوابزادہ ریاض احمد زہری ان کے کمسنپوتامیر مردان زہری،شہید آغا ورنا نوروز بلوچ،شہید سنگت جمالدینی ،شہید سلام ایڈووکیٹ، شہید میر جمعہ خان رئیسانی، شہید علی اکبر موسیانی، شہید نصیر جان لانگو، شہید ملک نوید دہوار،شہید اسمائ سلام،شہید نواب الدین نیچاری،شہید حاجی لیاقت مینگل، شہید ملااحمد یوسف بلوچ،شہید زاہدبلوچ، شہید حاجی عطائ محمد زئی،شہید مراد جان گچگی،شہید زبیر جان گچکی،شہید خان محمد غلامانی،شہید ڈاکٹر صالح بلوچ، شہید شہناز بلوچ،شہید علی اکبر موسیانی، شہید ناصر جان بلوچ،شہید امتیاز حسین بلوچ،شہید ظریف دہوار، شہید سمیر جان بلوچ،شہید واجہ رحیم بلوچ، شہید واجہ عید محمد،شہید عبدالعزیز گمشادزئی،شہید عبدالناصر،شہید خان جان شائی زئی،شہید ماسٹر عبدالطیف شاہوانی،شہید سعید احمد بارانزئی،شہید عبدالحئی محمدحسنی، شہید ثنائ اللہ مردوئی،شہید اللہ بخش مردوئی،شہید وحید بلوچ،شہید سلمان،شہید حافظ عبدالقادر مینگل،شہید عبید اللہ گرزگی،شہید صحافی عبدالحق بلوچ،شہید جاوید احمد بارانزئی،شہید محمد گل محمد زئی،شہید حاجی ہدایت اللہ لہڑی،شہید محمدحسن،شہید فتح خاتون،رئیس عبدالقدوس مینگل،شہید رضامحمد محمدزئی،شہید عبدالکریم مینگل،شہید میر عبدالرحمان دینازئی، شہید مشرف زہری،شہید سکندر گورشانی سے لیکر اب تک پارٹی کے 95کے قریب دوستوں کو شہید کیا گیا . جبکہ بہت سے پارٹی کے کارکنان تاحال لاپتہ ہیں پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کے گھر وڈھ پر راکٹ حملہ کرایا گیا پارٹی نے شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے خلاف احتجاجاً 2006ئ ? کو اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر بلوچستان کی پارلیمانی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلوچستان کے حالات زار پر دنیا کے توجہ مبذول کرانے میں کامیاب رہے،بی این پی نے ہمیشہ بلوچستان میں ہونے والے ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں اور سیاسی کارکنوں کو غائب کرنے سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ چادر و چار دیواری کی پامالی سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت بلوچستان میں بلوچ عوام کے مرضی و منشائ کوشامل کئے ہوئے بغیر ترقی کے نام پر ایسے نام نہاد منصوبوں اور پروجیکٹس کی کبھی بھی حمایت نہیں کی جوکہ ہماری تہذیب و تمدن تشخص بقائ سلامتی کے خاتمے کا سبب بنیں گے،بی این پی نے سیاسی جمہوری انداز میں بلوچستان اور بلوچ قوم کے قومی اجتماعی معاشی اور معاشرتی سیاسی حقوق کے استحصال کے خلاف ہمیشہ قربانیاں دی اور ہر جگہ پر سیاسی جلسے جلوس احتجاجی مظاہروں کے ذریعے یہاں پر ہونے والے ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اہلیان بلوچستان ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کبھی بھی خاموشی اور رائے فرار اختیار نہیں کی۔پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے جنوری 2013ءکودوسالہ جلا وطنی ختم کرکے دوبئی سے اسلام آباد آکر سپریم کورٹ میں جوچھ نکات پیش کیا۔یہ وہ ایشوز ہیں جو بلوچستانی عوام کوگذشتہ73سالوں سے درپیش ہیں بی این پی کی جڑیں عوام میں مضبوط ہیں اور پارٹی نے بہتر انداز میں بلوچ عوام کے استحصال سیاسی معاشی معاشرتی محکومیت اور پسماندگی کی خاتمے کو ملکی سطح پر متحرف کرنے میں سرگرم عمل رہے ہیں۔اسی حوالے سے 2018ئ عام انتخابات میں بلوچستان کے باشعور عوام نے پارٹی کی اصولی موقف قربانیوں جدوجہد پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے قیمتی ووٹوں سے بھاری اکثریت سے کامیاب کراکے اپنی حقیقی نمائندہ جماعت کا درجہ دیااور پارٹی نے یہاں کے عوام کی حقوق کی ارمانوں احساسات اور جذبات کی حقیقی معنوں میں عکاسی کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت میں شراکت اقتدار کی بجائے وزارتیں مراعاتیں اور اقتدار کو رد کیا یہاں کے عوام کی اجتماعی قومی مفادات اور سرزمین کی دفاع اور تحفظ کو اولیت دیکر مری ،بنی گالہ اسلام آباد اورلاہور کے بجائے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ، سریاب روڈ مندرجہ ذیل 6نکات جو کہ بلوچستان کے دیرینہ سیاسی ایشوز ہیں ایک ڈرافٹ کی شکل میں بی این پی اور پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین نے ایک معائدے پر دستخط کیا جن میں 

1:ہزاروں بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی 

2:گوادر میں بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے ڈیموگرافک تبدیلی کو روکنے کیلئے قانون سازی

3: بلوچستان کے ساحل وسائل قدرتی دولت پر صوبے کی عوام کی واحق و اختیارتسلیم کرانا

4: بلوچستان کے کوٹے پر وفاق میں ملازمتوں پر صوبے کی 6فیصد کوٹے پر عملدرآمد کرانا

5:لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی باعزت انخلاءکو یقینی بنایا جائے۔

6:صحت تعلیم ترقی و خوشحالی کیلئے بلوچستان کیلئے خصوصی گرانٹ۔بلوچستان میں پانی کی بڑتی ہوئی بحران پر قابوپانے کیلئے ڈیمز کا قیام۔ایک معاہدہ کیا تاکہ بلوچستان کے دیرینہ سیاسی ایشوز میں کمی واقع ہوسکے لیکن اسکے باوجود اس دورے حکومت میں بھی بی این پی کے نہتے وسرکردہ کارکنوں کے ساتھ مظالم کا ماضی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اس دوران پنجگور میں پارٹی کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری میر نذیر احمد بلوچ کے گھر پر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی بلا جواز چھاپہ چادر اور چار دیواری کی پامالی 2نومبر 2018ءکو تحصیل تمبو نصیر آباد میں بی این پی کے ممبر اور ممتاز کرکٹر رفیق عمرانی کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سے قتل و غارت گری کا نشانہ بنانا13نومبر 2018ء کو نصیر آبادڈیرہ مراد جمالی کے ریڈزون میں واقعہ بی این پی کے ضلعی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر شاہ نواز مینگل کے بڑے بھائی اور سندھ بلوچستان رائس ملز کے ممتاز تاجر حاجی محمد نواز مینگل کو اغواءکرکے ضلع مستونگ کڈکوچہ کے علاقے میں ان کی تشدد زدہ اور بوری بند لاش برآمد ہوئی۔ 15جنوری 2019ءکو مستونگ میں بی این پی کے ضلعی ہیومن رائٹس سیکرٹری حاجی نظر محمد ابابکی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئے۔ 16اور 17اگست 2019ئ کے درمیانی شب رات 1بجے کو زہری کے علاقے بلبل میں بلوچ قومی تحریک کے عظیم رہنما شہید بابو نواب نوروز خان زہری کے فرزند اور پارٹی کے سرکردہ رہنمائ نواب امان اللہ خان زہری ان کے کمسن پوتے میر مردان خان زہری انکے دوساتھیوں سکندر گورشانی اور مشرف زہری کو گھاٹ پر بیٹھے ہوئے چاروں طرف مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا جب وہ پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر اور سابق ضلعی ناظم خضدار سردار نصیر احمد موسیانی کے خالہ کے انتقال کی تدفین نماز جنازہ کے رسم کے ادائیگی کے بعد اپنے اہل خانہ جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے واپس اپنے آبائی علاقہ نورگامہ کی طرف آرہے تھے۔20ستمبر 2019ئ کو وڈھ میں بی این پی کے ایک فعال ممبر ڈاکٹر کریم کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا۔ان واقعات میں ملوث قاتلوں اور حملہ آوروں کو اج تک گرفتار نہیں کیاجارہا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہر دور میں بی این پی کے نہتے وسرکردہ رہنماو¿ں کو غیر جمہوری قوتیں اور ان کے گماشتیں راستے سے ہٹانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں تاکہ بی این پی کی بلوچستان کی قومی سیاسی جمہوری جدوجہد میں مضبوط گرفت پذیرائی عوامی تائید و حمایت کو خوف و ہراس قتل و غارت گری جیسے منفی ہتھکنڈوں کے ذریعے سے ناکام بنایا جاسکے۔ کیونکہ پارٹی کی جدوجہد سیاست کا محور ومقصد ہمیشہ بلوچ قوم کی خدمت اور بلوچستانی عوام کے قومی مجموعی اجتماعی مفادات اور جغرافیائی حدود کی حفاظت کرنا ہے اس سے پہلے بلوچستان کے نام نہاد قوم وطن دوست جماعتوں نے اپنے ذاتی گروہی مفادات اقتدار وزارتوں اور کمیشن کی خاطر مرکز اور صوبے میں شرکت اقتدار کیلئے عوام کے ارمانوں کے تکمیل کے برخلاف معاہدے کئے اور انہوں نے صوبے کے قومی اجتماعی مفادات پر مکمل طور پر خاموشی اختیار کی۔جبکہ بی این پی اور سردار اختر جان مینگل نے اجتماعی قومی مفادات کو اولیت دیکر چھ نکات پیش کئے۔یہ عمل حقیقی قوم وطن دوست اکابرین جماعتوں اور غیر حقیقی جماعتوں اور اکابرین میں فرق اور تضاد کو واضح کرتا ہے۔ جس طرح جنوبی افریقہ کے عظیم سیاسی رہنمائ نیلسن منڈیلا کہتا ہے کہ لیڈر اور سیاست دان میں یہ فرق ہوتا ہے کہ سیاست دان اآنے والے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے۔اور لیڈر اپنے آنے والے مستقبل اور ملت کے بارے میں سوچتا ہے۔ شہید میر نور الدین مینگل جیسی عظیم ہستی کو شہید کرکے جسمانی طور پر بی این پی اور بلوچ قوم کو کمزور کرنے کی ضرور کوشش کی ہو یقینا وہ ایک بہادر انسان تھے ان کی شہادت پر اہلیان بلوچستان اور بی این پی کے کارکنوں کو فخر اور اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قومی تحریک کیلئے اپنی جان کی قربانی دیکر منزل کو اور قریب کردیا جنہوں نے تمام تر مراعات مفادات قوم وطن دشمنی ضمیر فروشی مفادت پرستی کو رد کرتے ہوئے سخت راہوں بھوک افلاس گرمی سردی اور کٹھن راہوں پر چلتے ہوئے قومی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کیا جوکہ ہر محب وطن انسان کا یہ خوائش ہوتا کہ وہ اپنی قوم اور مٹی کا قرض ادا کرکے مر مٹ سکے ،شہید میر نور الدین مینگل اور دیگر شہداءکی قربانیوں کو عملی جامعہ پہنانے اور اپنے قومی ہیروز کے نقش قدم پر چلنے کا بہترین طریقہ ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی خاطرہر قسم کی مصلحت پسندی،دروغ گوئی مفادت پرستی موقع پرستی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے طرز انداز کی رویہ اور سوچ کو ترک کرکے بلوچ قوم اور بلوچستان کو آنے والے تبدیلیوں اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی تحریک کو تنظیمی طور پر دور جدید کے خطوط پر استوار اور سینٹفک بنیادوں پرمضبوط و منظم کرکے قومی تحریک میں ایمانداری مخلصی اور سچائی سے اپنا عملی کردار ادا کرنا ہوگا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post