بلوچستان پاکستانی فورسز کے ہاتھوں دو افراد جبری لاپتہ ، تین بازیاب

 


کوئٹہ ( بلوچستان ٹوڈے )

بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاکستانی فورسز نے ایک شخص کو حراست میں لے کر لاپتہ کر دیاہے۔

لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت جعفر ولد اعجاز، ساکن ہوت آباد کے طور پر ہوئی ہے۔

علاقائی ذرائع کے مطابق، انہیں 30 جولائی کو کیچ کے علاقے خیر آباد سے پاکستانی فورسز نے حراست میں لیا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔

علاوہ ازیں بلوچستان کے ضلع واشک کے علاقے ناگ میں پاکستانی فورسز نے ایک نوجوان کو حراست میں لینے کے بعد 


جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔

یہ واقعہ 31 جولائی 2025 کی رات پیش آیا، علاقائی ذرائع کے مطابق، شب دو بجے کے قریب فورسز نے ٹکری میر حاجی حاصل خان ساسولی کے گھر پر دھاوا بولا، جہاں سے ان کے نوجوان بیٹے عبد الکریم کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

اہلِ خانہ کے مطابق چھاپے کے دوران نہ صرف انہیں زد و کوب کیا گیا بلکہ گھریلو سامان کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ طویل عرصے سے انسانی حقوق کے حلقوں میں باعثِ تشویش ہے۔ متعدد مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں بارہا اس رجحان پر آواز بلند کر چکی ہیں، تاہم زمینی صورتحال میں کوئی واضح بہتری نظر نہیں آ رہی۔

سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں حراست کے بعد جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے تین افراد منظرعام پر آگئے ہیں، جن میں سے دو افراد بازیاب ہوچکے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کے شعبہ فلسفہ کے طالبعلم مسلم داد بلوچ جنہیں 27 جولائی کو کراچی یونیورسٹی کے مسکن گیٹ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا، آج بازیاب 


ہوگئے ہیں۔

اہلِ خانہ نے مسلم داد کی بحفاظت واپسی کی تصدیق کردی ہے۔

ادھر تربت مچھلی مارکیٹ سے لاپتہ ہونے والے موسیٰ ولد میرگل مری بھی گزشتہ روز بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے ہیں۔

دریں اثنا، گزشتہ مہینے 23 اور 24 جولائی کی درمیانی شب کوئٹہ بروری روڈ پر واقع ایک کمرے پر سی ٹی ڈی کے چھاپے کے دوران لاپتہ ہونے والے قانون کے طالبعلم اور وکیل حکیم بلوچ بھی منظرعام پر آگئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں حکیم بلوچ پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11-EEEE کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی ہے اور انہیں انکوائری کے مقصد سے ایک ماہ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے، تاہم انھیں تاحال اپنے اہلِ خانہ سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

سی ٹی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ حکیم بلوچ کا تعلق بی ایل اے سے ہے جس کے تحت انکی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، تاہم ابتک انھیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔

حکیم بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچستان بار کونسل اور وکلاء کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا بار کونسل نے ان کے منظرعام پر آنے کی باقاعدہ تصدیق کردی ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post