سانحہ ڈیگاری کے سوشل میڈیا پر افسوس ناک درناک واقعہ میں بہادر بیٹی نور بانو اور احسان کی قتل کی ویڈیو شائع ہونے کے بعد یہ واقعہ پوری دنیا میں پہنچ گیا اور فتنتہ الپاکستانی ریاست کا سیاہ چہرہ دنیا کے سامنے اور عیاں کردیا کہ پاکستان اور اسکے مقبوضہ علاقوں میں انسان خصوصا خواتین کی کتنی عزت احترام کی جاتی ہے ۔
سوشل میڈیا پر ہر طرف سے قاتلوں، پاکستان کی عدالتی نظام پر تھو تھو سمیت حکومت پر سوال اٹھا گئے تو انھوں نے ربڑ اسٹیمپ ڈیتھ اسکوائڈ کے سرغنہ نام نہاد بلوچستان کے کھٹ پتلی وزیر اعلی کو حکم دیا گیا کہ جس طرح بھی ہو سوشل میڈیا کو ٹھنڈا کرنے کیلے ایک بار واقعہ کے مرکزی مجرم نام نہاد قبائلی سردار کو گرفتار کریں تاکہ معاملہ ٹھنڈا ہو ،جس طرح ڈیڑھ ایک سال پہلے سردار عبدالرحمن کھیتران کو خاتون اور بچوں کو قتل کرکے کنویں میں پھینکنے کے واقعہ کو سرد کرنے کیلے کچھ دن پروٹوکول کےساتھ جیل میں رکھ کر سیون اسٹار ہوٹل کی سہولیات دی گئیں ، ٹھیک اسی طرح مذکورہ نام نہاد انگوٹھ چھاپ سردار شیر باز ساتکزئی کو بھی دیاجائے ۔جس کے بعد مذکورہ سرکاری فوجی بوٹ چاٹ چیلہ کو عزت احترام کے ساتھ شاہی پروٹوکول دیکر گاڑی میں بٹھا کر دھوم دھام طریقے سے عدالت میں پیش کرکے ایک دن کا ریمانڈ لیاگیا اور سیون اسٹار ہوٹل میں لے جایاگیا ۔جہاں تفتیش ہوگی( یعنی تفتیش دوران کباب شباب پیش کی جائے گی ) اور پیٹھ پر تھپکی دیکر رخصت کیا جائے گا کہ پریشان نہ ہوں ہم سنبھالیں گے۔
پھر شاہی پروٹوکول کے ساتھ قاتل کو ایک دو پیشی من پسند عدالت میں دلوائی جائے گی ،اس کے بعد وہ بھی گھر چلے جائیں گے اور آئندہ فارم 47 ذریعے بلوچستان اسمبلی میں اسے بھی عبدالرحمان کھیتران کی طرح وزیر بنایا جائے گا ۔
یہاں قارئین سوچتے ہونگے کہ میں بار بار ہر کالم میں عبدالرحمان کھیتران کو ہی کیوں رگڑ رہاہوں اور ٹھگ بھی بلوچستان میں بے شمار ہیں ،تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تازہ تازہ عوامی غیض غضب کا اس طرح شکار بن کر نکلے ہیں ،لہذا ایک مثال ہے کیوں کہ اس سانحہ سے پہلے اس کے نجی جیل کے سیاہ کارنامے ایک بہادر قیدی لڑکی نے اپنی جان گنوا کر ویڈیو وائرل کرکے سامنے لائی تھی ۔جس پرایسا ہی شور اٹھا تھا لوگوں کے ضمیر کچھ مہینوں کیلے جاگ گئے تھے۔
ورنہ بلوچستان ہو یا سندھ خیبر پختونخواہ اور خود پاکستان اور پنجاب ،میں جتنے سرکاری سردار نواب ،ملک ،وڈیرے ،چوھدری ہیں ۔ سارے ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے والے لگڑبھگڑ ہوتے ہیں ،یعنی انپڑھ، گنوار ،قانون اور انسانیت سے نابلد ہوتے ہیں ،ان کا زور صرف مونچھوں شلوار ، پگڑی بڑا کرنے،اور حیوانی خصلتوں سے لبریز ہوتے ہیں ،انکے اردگرد بندوق بردار جتھے ہر وقت منڈلانے پھرتے ہیں،جس سرکاری کاسہ لیس فوجی بوٹ چاٹ سردار نواب ،ملک ،وڈیرہ، چوہدری کے بندوق بردار ہوتے ہیں ان کا انتخاب زانی ،چور لٹیرے، نشئی منشیات فروش اور گینگوں سے لیے جاتے ہیں ۔ جس کے محافظ ایسے گناہ گار ،اور ظالم ہونگے اسکا رعب دبدبہ زیادہ مانا جائے گا ۔
پھر قابض ریاست کے اصل حکمران فوج خفیہ ایجنسیاں اسی سردار کو زیادہ چھوٹ دے رکھتے ہیں کہ جب بھی فوج ایجنیسوں کو کس چیز کی ضرورت ہو تو پیش کروگے چاہئے وہ تمہاری ۔۔۔۔ ہو ہماری ہے ،جس کے بعد تمہیں ہاتھ نہیں لگایا جائے گا ،علاقہ کے تھانے ، خفیہ ایجنسیاں تمہارے مٹھی میں دیئے جائیں گے تمہارے ایک اشارہ پر لوگوں کو اٹھائیں گے ماریں گے قتل کریں گے ،آپ اپنی رعایا پر جو چاہیں کرسکتے ہیں کسی کا ریپ کرنا ہے ،زمین ہتھیانا دکان قبضہ کرنا ہے،مال لوٹنا ہے،منشیات بیچنا ہے ،چوری کرنا ہے ،جوئے کے اڈے ،قحبہ خانے چلانا ہے سب برائیوں کیلے کھلی چھوٹ ہوگی اور پولیس تھانہ اس کیلے آپ کیلے خصوصی طورپر وقف کیے جائیں گے کیوں کہ ہر برائی کی شروعات تھانہ پولیس سے (یہاں پاکستان میں )شروع ہوتی ہے ۔
قارئین کرام اس بات سے آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مزکورہ جاہل سرداروں کو ہر قبیلہ پر کیوں مسلط کیاجاتاہے ،دراصل یہ قابض ظالم حکمرانوں کے خزانہ کے چابی مانے جاتے ہیں، انھیں کے ذریعے وہ عوام کو خوف میں رکھ کر سر اٹھانے اپنی انسانی بنیادی حقوق اور حق آزادی مانگنے سے لاتعلق بناتے ہے ۔
ہم دور نہ جائیں تین چار مہینے کی بات ہے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ،بیبو ،گلزادی ،صبغت اللہ شاہ جی ،بیبرگ بلوچ اور عمران کو کالے قانون تھری ایم پی او جو ان پر قانونا لاگونہیں ہوتا کھٹ پتلی حکومت نے فوج ایجنسیوں کے کہنے پر زندانوں اس لیے پھینکا کہ وہ فوج ہاتھوں قتل ہونے والے 13 معصوم لاپتہ افراد کے نعشیں مانگ رہے تھے کہ انھیں انکے لواحقین دیکھر تسلی کریں انکے پیارے اس دنیا میں نہیں رہے انھیں بہادر فوج نے پہلے لاپتہ پھر جعلی مقابلے میں قتل کردیا ہے ،،جب انھیں تین چار ماہ جیل میں قید رکھنے کے بعد جواز نہیں ملا تو انھیں جھوٹے کیس بناکر پہلے دس پھر 15 دن کیلے ریمانڈ کیلے پولیس کے درندوں کے حوالے کردیا گیا ۔
حد یہ کہ پیشی دوران ڈاکٹر ماہ رنگ نے جج سے یہ پوچھا کہ ہمیں بتایا جائے کس کے کہنے پر ہمیں ریمانڈ پر ریمانڈ دیا جارہا ہے ،جج لاجواب تھے کمرہ عدالت سے بھاگ گیا کہ کیا جواب دوں ،کیوں کہ یہاں سب کچھ فوج ایجنسیوں کا حکم چلتا ہے۔ اگر وہ نہیں بھاگتے تو ان کے جواب سے فوج ایجنسیوں کا راز کھل جاتا ،کیوں کہ جب تک وہ نہیں چاہتے جیل میں سڑتے رہیں ریمانڈ پر ریمانڈ ،کیس پر کیس بنایا جاتا رہے گا ۔
جس کی اصل وجہ یہ کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت میں وہ کھوٹ برائی نہیں ہے جو ان کے نام نہاد گنوار سرداروں میر معتبروں میں ہے ۔
اس سانحہ کے وائرل ہونےکے بعد پاکستان کے زیر قبضہ مقبوضہ بلوچستان سمیت سندھ ،پختونخواہ ،آزاد کشمیر کے غلام قوں کی ذمہداری ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ ساتھ فوجی کاسہ لیس گنوار نام نہاد قبائلی سردار،ملک ،چوہدریوں اور وڈیروں سے چھٹکار ا حاصل کرنے کیلے ایسے لیڈر پیدا کریں جن کے گرد صلاح کار مشیر گنوار انپڑھ جاہل ،جو ا گر ،چور،دلال ،قحبہ خانے چلانے والے، منشیات فروش ،بھت خور ،گینگ والے ڈاکو نہ ہوں بلکہ لازمی ہے کہ انکے گرد ایسے انسان ہوں جن میں انسانیت کے ساتھ ساتھ علمی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہو ،آزادی کے بعد ان کی جگہ خود بخود ادارے جگہ لیں گے جہاں باقاعدہ قانونی طریقے سے ایسے فرسودہ رسم رواج کو ختم کیا جائے، جہاں عورت صنف کی نام پر قتل ہوں ،کسی بھی بالغ مرد اور عورت کو اپنی زندگی جینا کا مکمل حق حاصل ہو،کوئی عورت زندگی میں شادی ہی نہیں کرنا چاہتی تو اس پر کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہئے ، اگر عورت کسی مرد کو قبول نہیں کرتی تو زبردستی کے نکاح کو غیر قانونی کرار دیکر مذکورہ شوہر سمیت ملوث خاندان کے ساتھ نکاح خوان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کیاجائے نام نہاد شوہر اگر زبردستی سونا چاہتا ہے تو زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرکے اسے کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔
ہمارے معاشرے میں اور سب سے بڑی لعنت جہیز کا ہے اس لعنت کو بھی ختم کیا جائے ،کیوں کہ اکثر والدین بھائی رقم کی لالچ میں زبردستی بہن بیٹیوں کی شادی کرواتے ہیں اگر نہ مانے تو کاروکاری کا الزام لگاکر انھیں قتل کردیتے ہیں۔
حالاں کہ اسلام میں بھی ہے کہ نکاح دوران گواہاں سامنے جب تک خاتون یا مرد ایک دوسرے کو تین دفعہ قبول نہیں کرتے ہیں نکاح نہیں پڑھا جاتا ۔
اور جس طرح مرد پر قبول کرنے کی دباو نہیں خاتون پر کوئی دباؤ بھی نہیں ہونا چاہئے ۔
یہ بدلاو لانے کے بعد ہم وحشی درندہ نہیں کہلائیں گے نہی کوئی ہم اور آپ پر تھو تھو کرے گا کہ اپنی بہن بیٹویوں کی قاتل ہیں ،وحشی درندے ہیں۔