اسلام آباد( بلوچستان ٹوڈے ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے سماجی رابطے کی ماہیکرو بلاگنگ ساہٹ ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلام آباد جیسی شہر میں بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیاں مسلسل ہمیں فالو کر رہی ہیں، ہراساں کر رہی ہیں اور ریاستی ادارے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ بحث اب بےمعنی ہے کہ یہ گاڑیاں کس کی ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے۔ اصل سوال یہ ہے: کیا اس ملک میں بلوچوں کیلیے کوئی قانون نہیں؟ کیا ہم دشمن ریاست کے شہری ہیں؟
انھوں نے کہا کہ ہم نے جو دوسرا گھر کرائے پر لیا تھا آج اس کے مالک کو بھی ریاستی دباؤ کے تحت مجبور کیا گیا کہ ہمیں نکال دے۔ اب ضعیف مائیں، بہنیں، اور نوجوان کھلے آسمان تلے ہیں بے آسرا، بے سہارا، صرف اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کی امید لیے۔
ریاست جس طرح اپنے ہی شہریوں کو بے گھر کر کے ہراساں کر کے، اور در بدر کر رہی ہے، شاید دشمن ملک بھی اپنے قیدیوں سے ایسا سلوک نہ کرے۔
نادیہ بلوچ نے کہا کہ اگر ہمیں دارالحکومت میں ایک کرائے کا گھر لینے کی اجازت نہیں تو کم از کم ہمیں نیشنل پریس کلب کے سامنے خیمہ لگا کر پرامن احتجاج کرنے کی اجازت دی جائے۔ یا ہمیں واضح طور پر بتا دیں کہ اس ریاست میں بلوچوں کے لیے نہ زمین ہے، نہ آواز، نہ سانس لینے کا حق۔
انھوں نے کہاہے کہ چند گھنٹے قبل ایک پی ٹی آئی رہنما صرف کھانا دینے آئی تھی ، اس کے ڈرائیور اور گاڑی کو غائب کر دیا گیا۔ یہ ہراسانی نہیں، یہ بلوچوں کو سبق سکھانے کا ریاستی منصوبہ ہے۔
ریاست کو یہ یاد رکھنا چاہیے: جو قومیں انصاف مانگنے پر دھتکاری جائیں، وہ ایک دن خاموش نہیں رہتیں وہ چیختی بھی ہیں اور پھر لڑتی بھی ہیں۔ بلوچوں کو دیوار سے لگانا بند کریں کیونکہ دیوار گر گئی تو اس کے ملبے تلے ریاست خود دفن ہو سکتی ہے۔