اسلام آباد، جسے ریاست کا دل کہا جاتا ہے، آج پھر ان مظلوموں کے نوحوں سے گونج رہا ہے جن کی صدائیں بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے ہوتے ہوئے انصاف کے ایوانوں تک رسائی چاہتی ہیں۔ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں کی بازیابی کے لیے قائم احتجاجی کیمپ صرف چند خیموں اور پلے کارڈز کا منظر نہیں، بلکہ یہ جبر، آئینی پامالی، اور انسانی ضمیر کے امتحان کی ایک تلخ علامت بن چکا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، گلزادی بلوچ، بیبو بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، بیبگر بلوچ، ماما غفار اور عمران بلوچ، یہ وہ نام ہیں جنہیں صرف بلوچستان نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف سینہ سپر ہر فرد عزت سے یاد کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ گزشتہ چار ماہ سے یہی کردار بغیر کسی قانونی کارروائی کے قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے لگایا گیا کیمپ درحقیقت ایک سوالیہ نشان ہے۔
بلوچ خواتین، بزرگ مائیں، اور معصوم بچے سینکڑوں میل کا تھکا دینے والا سفر طے کر کے اسلام آباد صرف اس امید سے پہنچے کہ شاید دارالحکومت میں ان کی فریاد سنی جائے۔ مگر یہاں بھی ان کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا گیا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ پولیس نے احتجاجی کیمپ کے ٹینٹ، اسپیکر اور دیگر سامان ضبط کر لیا۔ بارش اور خراب موسم میں بزرگ خواتین اور ننھے بچے کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ اب ان پر گرفتاریوں اور کریک ڈاؤن کے بادل بھی منڈلا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا احتجاج کرنا آئینی حق نہیں؟ کیا ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ اسی انداز میں پیش آتی ہے جیسے وہ دشمنوں سے نمٹتی ہے؟ بلوچ ماؤں کی سسکیاں اور بچوں کی خاموش آنکھیں حکومت وقت سے صرف ایک ہی مطالبہ کر رہی ہیں۔ "ہمارے پیاروں کو واپس کرو"۔ مگر ریاست، جس کا کام ماں جیسا سلوک کرنا ہے، وہ ان ماں جیسی ہستیوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے پر تُلی ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم سوال کریں۔ کیا ہم واقعی ایک جمہوری ریاست میں رہ رہے ہیں؟ کیا میڈیا، عدلیہ، اور حکمران اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ بزرگ ماؤں کی فریاد بھی نہ سن سکیں؟ اگر اسلام آباد میں بھی انصاف نہیں ملتا، تو پھر بلوچستان کے غاروں میں چھپے لوگ کیونکر یقین کریں کہ ان کی آواز سنی جائے گی؟
اگر ان آوازوں کو آج نہ سنا گیا، تو کل یہی آوازیں ہمیں بھی سوالیہ نشان بنا دیں گی۔
اسلام آباد صرف ایوان اقتدار کا مرکز نہیں بلکہ ان ماں جیسے آنسوؤں کا بھی گواہ ہے جو کئی برسوں سے اپنے بچوں کی بازیابی کے لیے یہاں آتی ہیں، بین کرتی ہیں، سڑکوں پر بیٹھتی ہیں، مگر جواب میں صرف حکومتی خاموشی یا لاٹھی چارج پاتی ہیں۔یہ کوئی پہلا احتجاج نہیں۔ اس سے قبل عمران خان کی حکومت کے دوران جب لاپتہ افراد کے لواحقین نے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا، تب بھی ان کے حصے میں صرف تشدد آیا۔ وہ دن بلوچ بیٹی سمی دین بلوچ کے لیے قیامت کا دن تھا، جس پر پولیس نے لاٹھی برسا دی۔ وہ بیٹی جو صرف اپنے والد کے زندہ یا مردہ ہونے کی خبر مانگ رہی تھی، ریاست کے لیے اتنا "خطرناک" بن گئی کہ اسے لہولہان کر دیا گیا۔
اکیس دسمبر 2023 کی وہ رات بھی اسی کہانی کا تسلسل تھی۔ تربت سے نکلنے والا لانگ مارچ انصاف، شناخت اور انسانی وقار کے لیے ایک پُرامن احتجاج تھا۔ لیکن جب یہ قافلہ اسلام آباد پہنچا، تو ایک بار پھر "سلامتی" کے نام پر ظلم دہرا دیا گیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، وہ خاتون جنہوں نے انسانیت کی خدمت کا حلف لیا تھا، کو اس لیے گرفتار کیا گیا کہ وہ بھی اپنی قوم کی بیٹیوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔ ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ خاموش نہیں رہیں۔
چونگی نمبر 26 پر جب مظاہرین کو پریس کلب جانے سے روکا گیا، جب بارش میں خواتین اور بچے کھلے آسمان تلے بیٹھے، جب کیمپ پر دھاوا بولا گیا، اسپیکر ضبط کیے گئے، اور لاٹھیوں کی بارش کی گئی تو یہ سب کسی فوجی آمریت کی یاد دلاتا تھا، حالانکہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے "نمائندے" اقتدار میں تھے۔
ریاستی ادارے، میڈیا، اور عدلیہ سب خاموش تماشائی بنے رہے جیسے یہ سب کسی اور ملک کی عوام ہوں، جیسے ان کے دکھوں سے ان کا کوئی رشتہ ہی نہ ہو۔
سوال واضح ہے کہ کیا بلوچ ماں کا درد دوسروں سے کم تر ہے؟
کیا بلوچستان کے شہریوں کو اسلام أباد میں احتجاج کا آئینی حق حاصل نہیں؟
اسلام آباد کی سڑکیں آج بھی سمی دین بلوچ کے زخمی پاؤں، ماہ رنگ کی گریبان سے جھانکتی غیرت، اور ان بچوں کی چیخیں سن رہی ہیں جن کے ہاتھوں میں اپنے لاپتہ والد کی تصویر تھی۔ مگر کیا وہ صدائیں ایوانوں کے اندر پہنچ رہی ہیں؟ یا پھر وہی خاموشی، وہی ستم، وہی انکار؟
یہ احتجاج صرف بازیابی کے لیے نہیں، یہ احتجاج پاکستان کے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اگر آج بلوچوں کی آواز نہ سنی گئی، تو کل یہ چیخیں ہر دیوار کو ہلا دیں گی۔