کوئٹہ ( مانیٹرنگ ڈیسک )بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء بیبو بلوچ نے جیل سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں کہا ہے کہ زندگی کہیں پر بھی دکھوں سے خالی نہیں۔ بلوچ قوم اس وقت تاریخ کے ایک ایسے سنگھم پہ کھڑا ہے جسے رات کا تاریک ترین پِہر کہا جا سکتا ہے۔ مگر امید کا دامن قوم نے نہیں چھوڑا، خوشحال صبح کا یقین قائم ہے۔
انہوں نے کہا ہے انہیں دو مہینے ہوچکے ہیں صرف "حق” بات کہنے اور حق کے ساتھ کھڑا ہونے کی پاداش میں قید ہوئے۔ غاصبوں نے میرے بزرگ والد کو بھی پابند سلاسل رکھا ہے، صرف اس لیے کہ وہ میرے ساتھ کھڑے رہے، ہر پَل میری حوصلہ بنے رہے۔ میری والدہ دن رات میری فکر میں مبتلا اکیلی رہ گئی ہیں۔ یہ سوچ کر میرا دل بہت دُکھتا ہے کہ میری سیاسی جدوجہد نے اُنہیں اتنا تکلیف پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ میں اپنے والدین کی تکلیف پر دل سے معذرت خواہ ہوں، لیکن میں کبھی سر نہیں جھکاؤں گی۔ یہ عزم و استقلال میرے والدین کے تربیت کی ہی دین ہے۔ قید کی دیواریں میرے عزم کو کمزور نہیں کر سکتیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے دل میں مزاحمت کی آگ اور بھڑکتی ہے۔ چاہے یہ جبر کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، میں ظلم اور آمریت کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی رہوں گی۔ میں قید ہوں، پر میری روح آزاد ہے۔ اور اس ظالم نظام سے لڑنے کی آگ، وہ اب پہلے سے بھی تیز جل رہی ہے۔
اپنی والدہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے "آپ کی دعائیں اور ہمت مجھے طاقت دیتی ہیں۔”
اسی طرح والد کو مخاطب کرکے کہا ہے "آپ کا حوصلہ میرے لیے مشعلِ راہ ہے۔”
مزید قوم کے نام پیغام میں کہا ہے اور ان تمام بہادر لوگوں کے لیے جو ہمارے ساتھ کھڑے ہیں،ہم ایک آواز ہیں۔ ہم ظلم کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں، اور ہم ہی کامیاب ہوں گے۔