ہر سال جب 28 مئی کا سورج طلوع ہوتا ہے، پاکستان میں جشنِ یومِ تکبیر منایا جاتا ہے—مگر بلوچستان کی سرزمین پر یہ دن ایک گہرے دکھ، زخم اور سوگ کی علامت بن کر ابھرتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اس ریاست نے بلوچ قوم کو ہمیشہ تجربہ گاہ سمجھا، قربانی کا نشان بنایا، مگر کبھی ان قربانیوں کو تسلیم نہ کیا۔
بلوچ قوم کے لیے 28 مئی صرف ایٹمی دھماکوں کا دن نہیں بلکہ ایک ناقابلِ فراموش صدمہ ہے، جو چاغی کی پہاڑیوں سے اٹھا اور آج تک بلوچ دلوں میں سلگ رہا ہے۔ اس دن ریاست نے اپنے ایٹمی تجربات کے لیے بلوچستان کی دھرتی کا انتخاب کیا، جیسے یہ زمین کسی بے زبان، بے حیثیت قوم کی ملکیت ہو۔
بلوچستان نے قیامِ پاکستان کے وقت نہ صرف خیرسگالی کے جذبے سے قائداعظم کو سونے اور چاندی سے تولا، بلکہ عالمی بینک میں زرِ ضمانت بھی فراہم کیا۔ مگر اس خیرسگالی کا صلہ کیا ملا؟ طاقت کے نشے میں ریاست نے بلوچ قوم کو بدلے میں صرف محرومیاں، طعن و تشنیع، اور “غداری” کے سرٹیفکیٹ دیے۔
جب بھارت نے 1997 میں ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان نے بھی جوابی طاقت کا مظاہرہ ضروری سمجھا۔ مگر اس طاقت کے مظاہرے کے لیے جس زمین کا انتخاب کیا گیا، وہ چاغی تھا—بلوچستان کا دل۔ 28 مئی 1998 کو کیے گئے ان ایٹمی دھماکوں کے اثرات آج تک چاغی کے باسیوں کی زندگیوں کو جھلسا رہے ہیں۔ تابکاری، کینسر، بانجھ زمینیں، خشک سالی—یہ سب ان “قومی مفادات” کی قیمت تھی جو بلوچوں کی زندگیوں پر مسلط کیے گئے۔
ریاست نے ان قربانیوں کا نہ کبھی اعتراف کیا، نہ ازالہ۔ بلکہ جب بلوچ، پشتون، سندھی اور دیگر مظلوم قومیں اپنے حقوق مانگتے ہیں تو انہیں "را کے ایجنٹ"، "غدار"، اور "پراکسی" قرار دیا جاتا ہے۔ ریاستی بیانیے میں صرف وہی محبِ وطن ہیں جو خاموش رہیں، اطاعت کریں، اور استحصال کو تقدیر سمجھیں۔
77 سال سے بلوچستان کو محکوم رکھا گیا ہے—وسائل ہوں یا اختیارات، فیصلہ سازی ہو یا نمائندگی، ہر سطح پر پنجاب کو فوقیت حاصل ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اگر یہی وسائل پنجاب کے پاس ہوتے تو ریاست کا رویہ کیسا ہوتا؟ کیا وہاں بھی ایسی بے حسی، ناانصافی اور جبر کا بازار گرم ہوتا؟
آج بلوچ روز لاشیں اٹھا رہا ہے، صرف اس لیے کہ وہ اپنے وسائل، اپنی زمین، اور اپنے وجود پر اختیار مانگتا ہے۔ ان کے نمائندے منتخب نہیں بلکہ مسلط کردہ ہیں—ایسے کردار جو ریاستی پالیسیوں کے سہولت کار ہیں، جو عالمی طاقتوں کے سامنے بلوچستان کے وسائل کی بولی لگاتے ہیں، جبکہ بلوچ نوجوان لاپتا کیے جاتے ہیں، ان کی مائیں برسوں سے اپنے پیاروں کی راہ تک رہی ہیں۔
بلوچستان خودکفیل ہو سکتا تھا، ترقی کا علمبردار بن سکتا تھا—اگر اس کے وسائل کا منصفانہ استعمال ہوتا۔ اگر اس کی زمین کو ایٹمی تجربات کی بھٹی میں نہ جھونکا جاتا۔ مگر آج، بلوچ صرف ایک سوال پوچھتے ہیں۔
> "کیا اس ریاست میں ہماری زمین، ہمارے وسائل، اور ہماری زندگی کی کوئی قیمت ہے؟"