تاریخ گواہ ہے اگر افغان کو سختی کا سامنا رہا ہے تو بلوچ ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ اگر بلوچ کسی مشکل میں رہاہے تو افغان ان کا سہارا بن گئے ہیں ۔ حسن دوست بلوچ

 


لندن ( نمائندہ خصوصی ) پشتون تحفظ موومنٹ کے زیر اہتمام لندن میں خیبر پشتون قومی جرگہ کی حمایت میں ایک قومی جرگہ منعقد ہوا ۔ جس سے بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری حسن دوست بلوچ نے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج میں بلوچ غلام اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی عہدیدار کی حیثیت سے آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔

انھوں نے کہاکہ میرے پاس وطن ہے لیکن میں بے وطن ہوں، میری ہزارہاسالہ شناخت ہے لیکن میں قومی شناخت سے محروم ہوں، میری تہذیب کی قدامت نو سے گیارہ ہزار سال ہے لیکن مجھے سترسالہ نوآبادیاتی طاقت کا شہری سمجھا جاتا ہے، میں بلوچ ہوں لیکن دستاویزات اس ملک کا استعمال کر رہا ہوں جس کی کل عمر ہی ستتر سال ہے، میرے قومی تاریخ کی صدیوں کے سینے میں پیوست ہیں لیکن میرے آج میں میری جڑیں قومی شناخت سے محروم ایک ایسی طاقت کاٹ رہا ہے جو خود تاریخ سے محروم ہے، ایک ایسی دشمن جو صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے لیکن ہماری بدقسمتی آج اس کے پاس ریاست نامی آلہ ہے جو میرے قومی شناخت مٹا رہا ہے، جو میری زبان کاٹ رہا ہے، جو میری عزت و آبرو لوٹ رہا ہے ۔

حسن دوست نے کہاکہ میرے سرزمین کے سینے پر دنیا جہاں معدن و وسائل موجود ہیں لیکن فائدہ پنجابی اٹھا رہا ہے اور میرے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، میرے نوجوان کسی بھی قوم کے نوجوانوں سے کم ٹیلنٹیڈ نہیں لیکن ان کی زندگی چار بائی چار کی ایک خفیہ ٹارچر سیل ہے جس میں اذیت رسانی سے وہ قتل کیے جارہے ییں کیونکہ میں بلوچ ہوں، میں غلام بلوچ ہوں میں پنجابی کا غلام ہوں جو خود چند بڑے طاقتوں کی غلام ہے، افسوس کہ مجھے قابض بھی ملا وہ بھی سیکنڈ درجے کا ایک غلام ابن غلام، جس کا مقصد کمزور غلام کو کچلنا اور بڑے آقا کے سامنے سجدہ ریز ہونا۔

انھوں نے کہاکہ دوستو، غلامی میرا انتخاب نہیں تھا لیکن پیدائشی غلام ہوں میں چاہوں تو بھی اس غلامی سے قومی نجات سے پہلے چھٹکارا نہیں پاسکتا، مجھے امید ہے کہ میں آپ دوستوں کو قومی غلام کہہ کر پکاروں تو آپ لوگوں کو بھی اعتراج نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان ایک قبضہ گیر ہے اور بلوچ و پشتون اس کے غلام ہیں، نوآبادی ہیں، کالونی ہیں، ہماری مقدر کی باگ ڈور پناجبی کے ہاتھ میں ہے، جس کا شناخت و تاریخ قبضہ گیروں کی خوشامد و آؤ بھگت رہا ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے، یہ اپنی عمل سے ثابت کرچکا ہے اور ثابت کر رہا ہے، اس پر ہمیں اعتراض نہیں ہونا چاہئے، جب ہم حقیقت سے آنکھ چراتے ہیں تو اپنی حالت بدلنے کے کبھی نہیں سوچتے ہیں،

حسن دوست نے کہاکہ آج خوشی ہورہی ہے کہ میں عظیم پشتون قوم کے وارثوں کے سامنے حاضر ہوں، بلوچ و پشتونوں کی برادرانہ رشتہ پہاڑوں کی طرح قدیم اور سمندروں کی طرح گہری ہے۔ ایک ایسی رشتہ جس کی تاریخ جرات، قربانی اور بھائی چارے کے ناقابل شکست رشتوں سے عبارت ہے۔

جب میں بولتا ہوں، میرا دل مجھے تاریخ کے ان اوراق کی طرف لے جاتا ہے جب نصیر خان نوری اور احمد شاہ ابدالی نے اتحاد اور طاقت کی میراث قائم کی۔ انہوں نے ایک ایسا تعلق بنایا جو مشکلات کے سامنے امید کی کرن بن گیا۔ ان دنوں بلوچ اور افغان اقوام شانہ بشانہ کھڑے تھے، مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر نہ صرف بقا بلکہ اتحاد کی طاقت سے کامیابی حاصل کرتے تھے۔

بی این ایم کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری نے کہاکہ آج، میرے بھائیوں اور بہنوں، ہم تاریخ کے ایک ایسے ہی لمحے میں کھڑے ہیں۔ جیسے ان عظیم رہنماؤں نے ماضی میں اپنی اقوام کو متحد کیا، ہمیں بھی آج ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جو اتحاد، عزم اور حوصلے کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اس میں ایک فرق ہے، ماضی میں اگر ایک قوم مشکل میں ہوتی تو دوسری مدد کے لیے آتی۔ اگر افغانوں کو سختی کا سامنا ہوتا، تو بلوچ ان کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ اگر بلوچ کسی مشکل میں ہوتے تو افغان ان کا سہارا بنتے۔ لیکن آج، ہم دونوں ایک ہی دشمن کا سامنا کر رہے ہیں۔ آج، ہماری جدوجہد ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور ہماری بقا نہ صرف باہمی حمایت بلکہ مکمل اور غیر متزلزل اتحاد پر منحصر ہے۔

یہ ہمارے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ ہمارے سامنے چیلنجز بہت بڑے ہیں لیکن مواقع بھی اتنے ہی بڑے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے سبق کو یاد کریں، بھائی چارے، وفاداری اور ایک ہو کر کھڑے ہونے کے سبق۔ یہ وقت ہے کہ ہم ایک جھنڈے تلے متحد ہوں اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ان طاقتوں کے خلاف آگے بڑھیں جو ہمارے وجود کو مٹا رہی ہیں۔
ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا اور اپنی صلاحیتوں کو یکجا کرنا ہوگا۔ اقتصادی، سماجی، سیاسی—ہمیں ایک دوسرے کو مضبوط بنانا ہوگا کیونکہ ہمارا اتحاد ہی وہ طاقت ہے جس سے ہم اپنے دشمنوں کو شکست دیں گے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے امن، خوشحالی، اور وقار کا مستقبل محفوظ کریں گے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تاریخ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو تقسیم اور خوف سے اوپر اٹھتے ہیں۔ تاریخ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو انصاف اور آزادی کے لیے لڑتے ہیں۔ اور تاریخ ہمیں بھی یاد رکھے گی اگر ہم اس لمحے کو ایک ساتھ کھڑے ہو کر اتحاد اور فتح کے نئے باب لکھنے کے لیے استعمال کریں۔

انھوں نے کہاکہ ہمارا رشتہ قائم رہے، ہماری قوت کبھی نہ کمزور ہو، اور ہماری اجتماعی روح ہمیں ایک روشن مستقبل کی طرف لے جائے۔ ہم مل کر کامیاب ہوں گے کیونکہ ہم إحساس کرچکے ہیں کہ ہمارا دشمن بے رحم ہے، یہ کسی قاعدے قانون کی پابند نہیں، اس کے کوئی قومی و اخلاقی اقدار نہیں، یہ اکیس ویں صدی میں بھی قرون وسطی کے بے رحم فاتحوں کی سروں کے مینار بناکر اس پر اپنا نوآبادیاتی پرچم لہرا رہا ہے، ہمارے سروں کے میناروں کے سائے میں یہ وحشی قہقہے لگارہا ہے، پنجابی سمجھتا ہے کہ اس کے منحوس قہقہے ہمیشہ اسی طرح بلند ہوتے رہیں لیکن میں پنجابی سے کہہ سکتا ہوں کہ تمہاری قہقہوں کی موت قریب ہے کیونکہ بلوچ و پشتون بغاوت کا علم بلند کرچکے ہیں، جہاں بغاوت کے عَلم بلند ہوتے ہیں وہاں قابض کے غرور و تکبر کے زوال کے دن شروع ہوجاتے ہیں، پاکستان زوال اور بلوچ و پشتون عروج کی جانب بڑھ رہے ہیں کیونکہ مزاحمت کر رہے ہیں اور وہ طاقت کے نشے میں ہے، نشہ ٹوٹ جاتا ہے اور مزاحمت انسانیت کی عظیم میراث ہے جو روبہ روز فتح کی جانب بڑھتا ہے۔
آخر میں انہوں نے پشتون تحفظ موومنٹ لندن کو کامیاب قومی جرگہ منعقد کرنے پر مبارک باد دی

Post a Comment

Previous Post Next Post