بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی-مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا جبکہ انہوں نے سیکرٹری قومی اسمبلی کے پاس جا کر استعفی بھی جمع کرا دیا۔
پارلیمنٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ میں آج قومی اسمبلی سے استعفے کا اعلان کرتا ہوں، میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔
انہوں نے کہا کہ میں ریاست، صدر، وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتا ہوں، یہ لوگ بلوچستان کے مسئلے کو سمجھ نہیں سکے، ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں عزت سے بات کرنا سیکھایا، ملک میں حکومت نام کی رہ گئی ہے۔
اخترمینگل کا مزید کہنا تھا کہ2023 میں وزیر اعلیٰ ہاوس میں اجلاس کے دوران کہا تھا کہ ہمیں سیاست نہیں کرنے دیا جا رہا تو بتا دے ہم کوئی اور راستہ اختیار کریں گے کیونکہ اس سیاست سے بہتر ہے پکوڑے کی دکان لگالوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ لوگ بلوچستان کے مسئلے کو سمجھ نہیں سکے، اب کسی ادارے پر یقین نہیں رہا۔
سربراہ بی این پی مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں بہت سے لوگوں کا خون بہہ چکا ہے، اس مسئلے پر سب کو اکٹھا ہونا چاہیئے اس مسئلے پر ایک اجلاس بلانا چاہیے تھا جس میں اس مسئلے پر بات ہوتی، جب بھی اس مسئلے پر بات شروع کو تو بلیک آوٹ کر دیا جاتا ہے، میری باتوں پر اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ میری باتیں تحمل سے سنیں، اگر پھر بھی میری باتیں غلط لگیں تو مجھے ہر سزا قبول ہے، مجھے بے شک پارلیمنٹ کے باہر انکاؤنٹر کردیں یا مار وادیں لیکن بات تو سنیں ۔ ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں ور نہ کوئی بات تو سنتا۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ پارلیمنٹ نے خود کہا بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے، میں نے اپنی پارٹی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا، بلوچستان کے معاملے پرلوگوں کی دلچسپی نہیں ہے۔
اختر مینگل نے کہا آئین کے بنانے والے نہ خود کو بچا سکے نہ آئین کو بچا سکے، جب انہیں چارووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اخترمینگل کے پاس آجاتے ہیں اور جب ضرورت ہوتی ہے تومحمود خان اچکزئی کوتحفظ آئین کا چئیرمین بنا دیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ سردار اختر مینگل این اے256 خضدار سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
اس سے قبل سوشل میڈیا پر بیان میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ میرے والد سردار عطاء اللہ مینگل کی تیسری برسی کے موقع پر، میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بطور رکن پارلیمنٹ استعفیٰ دیتا ہوں۔ میں، اختر مینگل، رکن قومی اسمبلی، بطور رکن پارلیمنٹ اپنے عہدے سے مستعفی ہوتا ہوں۔
بلوچستان کی موجودہ صورتحال نے مجھے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو مسلسل اس ایوان کی جانب سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ ہر روز، ہمیں دیوار سے مزید لگایا جاتا ہے، جس سے ہمیں اپنے کردار پر نظرثانی کرنے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔
اس اسمبلی میں بلوچستان کے عوام کی حقیقی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے، میری طرح کی آوازیں بھی کوئی معنی خیز تبدیلی نہیں لا سکتیں۔
یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہمارے احتجاج یا اظہار رائے کو ہمیشہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے لوگوں کو یا تو خاموش کر دیا جاتا ہے، غدار قرار دیا جاتا ہے، یا بدتر، قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں، میں اس صلاحیت میں مزید کام کرنا ناممکن سمجھتا ہوں، کیونکہ یہاں میری موجودگی میرے نمائندہ عوام کے لیے کوئی فائدہ مند نہیں رہی۔لہٰذا، میں درخواست کرتا ہوں کہ میرے استعفے کو قبول کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ بلوچستان کی حفاظت فرمائے اور اسے خوشحال کرے۔