گوادر میں مکمل کرفیو، عالمی ادارے کوریج فراہم کریں۔ بی وائی سی کی فوری اپیل

 


بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کے مرکزی ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ عالمی میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کو ایک فوری اپیل ارسال کی ہے کہ بلوچستان اب مکمل طور پر جنگ زدہ خطہ بن چکا ہے۔

ترجمان نے کہاہے کہ  بلوچ یکجہتی کمیٹی نے 28 جولائی کو گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کا اعلان کیا تھا ،لیکن پاکستانی ریاست اس پرامن عوامی اجتماع کو روکنے کے لیے اپنی تمام تر مشینری اور طاقت استعمال کر رہی ہے اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہم پرامن قومی اجتماع کے خلاف گزشتہ 48 گھنٹوں میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں سے صرف چند ایک کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔جس میں گوادر اور مکران کے بیشتر علاقوں میں گزشتہ 48 گھنٹوں سے انٹرنیٹ مکمل طور پر بند ہے جب کہ کل شام سے فون نیٹ ورک بند ہیں۔ گوادر اور قریبی علاقوں میں مکمل غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ کسی کو گوادر میں داخل ہونے یا جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ بلوچ قومی اجتماع کا قافلہ ہزاروں افراد سمیت گزشتہ  صبح شال سے روانہ ہوا۔ شال سے نکلنے کے فوراً بعد پاکستانی فوج، فرنٹیئر کور نے انہیں روکنے کی بار بار کوشش کی ۔ اپنی زیادہ تعداد کی وجہ سے وہ ان متعدد رکاوٹوں کو عبور کر کے مستونگ پہنچے۔ 

مستونگ میں پاکستانی فوج نے پرامن کاروان پر براہ راست فائرنگ کی جس میں سینکڑوں خواتین اور بچے شامل تھے۔ اس بربریت کی وجہ سے 14 شرکاء زخمی ہوئے جن میں سے 3 شدید زخمی ہیں اور اب شال ٹراما سینٹر میں زیر علاج ہیں۔ اس کے بعد فوجی دستوں نے قافلے کی تمام گاڑیوں کے ٹائر پھاڑ دیئے، انہیں بیکار بنا دیا، اور براہ راست آگ لگا کر کھڑکیوں کو توڑ دیا۔ بلوچ قومی اجتماع کا ارادہ کارواں اس وقت مستونگ میں پرامن دھرنا دے رہا ہے۔

ترجمان نے کہاہے کہ تلار گوادر سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں فوج کا ایک بڑا فوجی کیمپ اور چوکی ہے۔

 بلوچ قومی اجتماع کے لیے مکران کے علاقے میں پہنچنے والے تمام قافلوں کو گزشتہ 48 گھنٹوں سے تلار چوکی پر روک دیا گیا ہے۔ کل شام تک، جب گوادر اور آس پاس کے علاقوں میں فون نیٹ ورک ابھی تک کام کر رہے تھے، مقامی صحافیوں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں نے اطلاع دی کہ فوج انتہائی تشدد، براہ راست فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کر رہی ہے۔

 اطلاعات آرہی ہیں کہ مبینہ طور پر کئی پرامن شرکاء زخمی اور ایک ہلاک ہوا۔ تاہم انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک بند ہونے سے ہمارا رابطہ منقطع ہو گیا ہے اور خدشہ ہے کہ وہاں کی صورتحال سنگین ہے اور بلوچ قومی اجتماع میں ہزاروں شرکاء کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔

انہوں کہاہے کہ کراچی اور حب سے قافلہ کل صبح بلوچ قومی اجتماع میں شرکت کے لیے روانہ ہوا لیکن انہیں کراچی کے یوسف گوٹھ بس ٹرمینل اور حب میں باوانی پر روک دیا گیا۔ 12 سے 14 گھنٹے تک روکے رہنے کے بعد، انہیں آگے بڑھنے کی اجازت دی گئی لیکن 200 کلومیٹر بعد بززی ٹاپ ہنگول میں انہیں دوبارہ روک دیا گیا، جہاں ان کی گاڑی کے ٹائر پھٹ گئے، اور انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس قافلے میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو کل رات سے بغیر کھانے اور پانی کے کھلے آسمان تلے ہنگول میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

ترجمان نے  اپیل کرتے ہوئے کہا  ہے کہ بلوچ قومی اجتماع کو سبوتاژ کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قومی اجتماع کی تیاری کرنے والے پرامن کارکنوں پر چھاپے مارے گئے۔ کراچی سے پانچ اور کوئٹہ سے متعدد افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پرامن کارکنوں کے خلاف کئی جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئیں۔

آج کی صورتحال کے حوالے سے تنظیم نے کہا آج 28 جولائی کو بلوچ قومی اجتماع کے خلاف پاکستانی ریاست کے ظلم و جبر کے خلاف بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے اس کے علاوہ کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے، مستونگ میں کوئٹہ کراچی ہائی وے اور ہنگول میں کوسٹل ہائی وے پر دھرنے جاری ہیں۔

‎عالمی میڈیا اور تنظیموں کو جاری کردہ بیان میں بی وائی سی نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک بند ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس آج گوادر میں ہونے والے قومی اجتماع کے بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں، تاہم بلوچستان کے دیگر علاقوں سے قافلے گذشتہ رات پنجگور پہنچے اور گوادر کے لیے روانہ ہوئے، جن میں سینکڑوں گاڑیاں شامل تھیں ابتک اپنے مقام تک نہیں پہنچے، انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک بند ہونے کی وجہ سے، ہم ان سے بھی کوئی اپ ڈیٹ حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔

میڈیا بلیک آؤٹ کے حوالے سے تنظیم نے کہا گذشتہ 48گھنٹوں سے پورا بلوچستان جنگ زدہ بنا ہوا ہے، لیکن یہ انتہائی افسوسناک اور صحافتی برادری کے لیے باعث شرم ہے کہ پاکستانی مین سٹریم میڈیا اور صحافیوں میں سے کسی نے بھی اس بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن پاکستان سمیت انٹرنیشنل میڈیا سے منسلک تمام صحافی اور میڈیا ہاؤسز مجرمانہ طور پر خاموش ہیں۔

انہوں نے  عالمی سطح پر تمام میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے  کہ وہ صحافتی اقدار اور اصولوں کا احترام کرتے ہوئے بلوچستان میں جنگ جیسی صورتحال، گوادر میں مکمل کرفیو اور پاکستانی ریاست کی طرف سے ہونے والے شدید ظلم و جبر کی کوریج فراہم کریں۔


Post a Comment

Previous Post Next Post