تربت لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے جاری دھرنا گاہ میں انسانی حقوق اور اسکی تاریخ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا

 


تربت۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کیچ کی آفس کے سامنے دھرناگاہ میں ایک سیمینار( بعنوان ،

انسانی حقوق اور اسکی تاریخ) کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمان خاص ادیب و دانشور، انسانی حقوق کے رہنما اور انسانی حقوق  کمیشن  آف پاکستان مکران ریجن کے کوارآرڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز تھے۔

پروفیسر غنی پرواز نے انسانی تاریخ میں بنیادی حقوق پر روشنی ڈالی اور کہاکہ محققین کے مطابق انسان اس سرزمین پر تقریباً دس لاکھ سال قبل آباہوا، پہلا ریاست غلامانہ ریاست تھا۔ ریاست کی زمہ داری ہےکہ انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے اور اور انہیں تمام بنیادی سہولتوں سے بہرہ کرے۔


انہوں نے جبری گمشدگیوں کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ جبری گمشدگیاں فوجی آمریت کی پیداوار ہیں، ان کا آغاز 1970میں لاطینی امریکی ملک ارجنٹائن میں شروع ہوا،پھر دیگر ممالک میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا.

پاکستان میں جبری گمشدگی بلوچوں کے خلاف سابق وزیر اعظم زوالفقار علی بھٹو کے دور میں سردار عطاءاللہ مینگل کے بیٹے اسد مینگل کو اغوا کرکے کیا گیا، پھر یہ بات سامنے آئی کہ اسد مینگل کو گرفتار کرکے قتل کیا گیا، لیکن پاکستان میں اجتماعی سطح پر اس کا آغاز سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بلوچستان میں شروع کیا گیا، بلوچ رہنماء عبدالنبی بنگلزئی کو 2000 میں جبری طور پر لاپتہ کیاگیا، زرینہ مری ایک خاتون تھی جنہیں جبری لاپتہ کیا گیا،

انھوں نے کہاکہ بلوچ سیاسی قائد چیرمین غلام محمد کو دو دیگر دوستوں کے ہمراہ جبری اغوا کے بعد قتل کرکے ان کی مسخ لاشیں پھینکی گئیں۔ پھر اس کے بعد ڈاکٹر دین محمد اور نوجوان سیاسی رہنما زاکر مجید بھی جبری طورپر لاپتہ کردیئے گئے اس کےبعد سے لیکر تاحال بلوچستان میں یہ سلسلہ جاری ہے اور اب تک ہزاروں سیاسی کارکنوں اور عام شہریوں کو لاپتہ کیا گیا ہے۔ جبری طورپر لوگوں لاپتہ کرنا غیر قانونی، غیر انسانی،غیر شرعی اور غیر اخلاقی و وحشیانہ عمل ہے جس کی اجازت دنیا کا کوئی قانون نہیں دے سکتا۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت بلوچستان میں رجسٹرڈ لاپتہ افراد کی تعداد 7 ہزار ہے جن میں تقریباً 2 ہزار جبری طور پر لاپتہ ہونے کے بعد مارے گئے ہیں جبکہ بعض کو جعلی مقابلوں کے زریعے بھی مارا گیا ہے۔ شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا جینیوا کنونشن، انسانی حقوق کے عالمی قانون اور خود  پاکستانی قانون کے مطابق ایک جرم ہے، اقوام متحدہ کی جانب ہرسال 30 اگست کو جبری گمشدگیوں کاعالمی دن منایا جاتاہے، فلپائن میں 2007 میں جبری گمشدہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن منایاگیا۔

انسانی حقوق کے رہنما  نے کہاکہ اقوام متحدہ کی جانب سے جبری گمشدگی کے شکار افراد کو رجسٹرڈ کیا جاتاہے، ایچ آر سی پی بھی  رجسٹرڈ کرتی ہے. انہوں نے کہاکہ ماضی میں لوگوں کو لاپتہ کرکے رہا کیا جاتا تھا مگر اب یہ رجحان کم ہے۔

 انہوں نے کہاکہ لوگوں کو لاپتہ کرنے والے طاقت ور عناصر اور اہل اقتدار بلوچ شورش کی آڑ میں عام بلوچ سیاسی کارکنوں کے جبری گمشدگی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ 

 سیمینار میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما صبغت اللہ عبدالحق بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ لاپتہ افراد کے لواحقین شدید گرمی میں پیاروں کی بازیابی کے لیے تکلیف دہ حالات میں بیٹھے ہیں جن میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں جو شدید گرمی میں بھی دہری ازیت کا شکار ہیں ، لیکن حکومت وادارے ٹھس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔


انھوں نے کہاکہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے اہل خانہ کا مطالبہ جائز اور ریاست کی آئین کے مطابق ہے۔ آئین اور آئینی اداروں کے قیام کا مقصد ہی یہی ہے لیکن اس ملک میں ایک طبقہ ہے جو اپنے آپ کو تمام آئین وقانون سے مبرا سمجھتی ہے اسی لیے وہ لوگوں کو جبری طورپر لاپتہ کرتی ہے۔

سیمینار کے اختتام  پر سوال جواب کا سیشن بھی رکھا گیا تھا جہاں انسانی حقوق اور بلوچستان کے حالات پر شرکا نے سوالات کیے اور پروفیسر غنی پرواز نے ان سوالوں کے جوابات دیے۔

پروگرام میں ضلع کیچ کے مختلف علاقوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کے اہل خانہ نے بھی خطاب کرتے ہوئے پیاروں کی بازیابی کامطالبہ کیا۔ جبکہ پروگرام کے دوران شدید گرمی کی شدت سے ایک خاتون کی طبیعت ناساز ہوگئی۔


اس موقع پر لاپتہ افرادکے خاندانوں کے علاوہ بڑی تعداد میں عام افراد، مختلف طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور سول سوسائٹی کے رہنما موجود تھے۔ جب کہ اہل خانہ نے لاپتہ افراد کے تصاویر اٹھائے رکھے تھے۔



Post a Comment

Previous Post Next Post