جبری گمشدگیوں کے خلاف وی بی ایم پی کی جاری احتجاجی کیمپ کو 5489 دن ہو مکمل

 


کوئٹہ جبری گمشدگیوں کے خلاف وی بی ایم پی کی جاری احتجاجی کیمپ کو 5489 دن ہو گئے ۔

اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے سابقہ چیئرمین زبیر بلوچ ندیم بلوچ خدائے رحیم بلوچ نے کیمپ میں شرکت کی ۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے جاری بیان میں  کہا ہےکہ آج کل بلوچستان میں اختلافات کا چرچا ہے پارلیمانی جماعتیں اور رد انقلابی اس صورت حال سے بہت خوش ہے وہ اپنی نجی محفلوں میں بڑی مسرت سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کیا بلوچ قومی تحریک کے لیے یہ نیک شگون ہیں 


ماما قدیر بلوچ نے کہا ہےکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچ قومی تحریک ایک ایسے مرحلے میں ہے جب ہر گلی کوچے میں بلوچوں کا خون بہہ رہا ہے ہزاروں نوجوان بزرگ بچے جبری  لاپتہ ہیں اذیت گاؤں میں ظلم سہہ رہے ہیں اکثر کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ذندہ ہیں یا اجتماعی قبرستانوں میں پھینک دیے گئے ہیں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے قبائلی جھگڑوں کے نام پر بلوچ معاشرے کو منظم ٹکڑوں میں کیا جارہا ہے ہر جانب آگ لگی ہوئی ہے لاکھوں بلوچ فوج کشی کے باعث اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں ہر گھر میں مخبر پیدا کیے جا رہے ہیں اور یہ تضاد کا کھیل سوشل میڈیا پر کھیلا جا رہا ہے

انھوں نے کہاہے کہ کیا یہ لوگ بلوچستان کی محبت کے جنون میں کابض ریاست کا کام اسان نہیں کر رہے کسی کے لیے کون قابل قبول نہیں کسی پر اعتراض کسی کے قابل قدر سپوتوں کے درمیان بھی اختلافات کے بیج بوے جا رہے ہیں۔ کیا یہ تحریک کا رومانس ہے یا غیر ذمہ دارانہ حرکتیں ہیں 

 انھوں نے کہاہے کہ عام بلوچوں نے اپنی ساری توقعات حتی کہ اپنی زندگیاں اور خاندان کی عزت و ابرو داؤ پر لگائے رکھے ہیں وہ ان سوالات کو سننے اور ان سے پیدا ہونے والے خیالات پر قبیدہ خاطر ہیں ان کا مورال کمزور کیا جارہا ہے، درباری ذہنیت کو اپنی بیچ میں سے نکالنا ہوگا۔ عوام اور بعض سیاسی شخصیات کی قربت کی خاطر قوم کے مفاد کو داؤ پر لگانے والوں سے دور رہنا ہوگا بے شک ہماری تعداد کم ہو اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن ایک بار موقع پرست ہمارے درمیان گھس بیٹھے وہ اختلافات ضرور ہوا دیں گے ایسے انسان کی تربیت کسی اور ماحول میں ہوئی ہے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ لاکھوں بلوچوں خون اور جذبات کی بنیاد پر جس نرگسیت کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے وہ تباہی کا باعث ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post