بلوچ کلچرل ڈے کی مناسبت سے بلوچ مسنگ پرسنز فیملیز کے ساتھ مزاحمت کا رنگ دے کر احتجاجی ریلی کی صورت میں منعقد کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ بی وائی سی

 


کراچی : کسی بھی قوم کی شناخت اس قوم کی زبان و ادب و ثقافت ہوتی ہے لیکن زبان و ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے آپ کو ایک قوم و نسل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اسی بقاء کو آج خطرہ لاحق ہے اور بلوچ نسل کشی اور لاپتہ افراد کی صورت میں اس شناخت کو ختم کیا جا رہا ہے، 2 مارچ بلوچ کلچرل ڈے کے دن بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) لاپتہ افراد کی فیملیز کے ساتھ بلوچ قوم کی ثقافت کو زندہ رکھنے والے ان تمام افراد سمیت اپنے قوم کی خاطر عرصہ دراز سے ٹارچر سیلوں میں قید لاپتہ افراد سمیت مسخ شدہ لاشوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے آرٹس کاؤنسل تا کراچی پریس کلب ایک ریلی منعقد کرے گی۔ ان خیالات کااظہار  بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے جاری بیان میں کیاہے۔ 

 ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہاہے کہ قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب ان کی شناخت باقی رہتی ہے اور ان کی بقاء کے لئے ان کی زبان و ادب تابندہ و حیات رہتی ہے، لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہے جب آپ ایک تہذیب یافتہ ملک کے باشندے ہوں اور آپ کی شناخت خطرے میں ہونے کا کوئی ڈر نہ ہو، نوآبادیات  کا سب سے پہلا عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کو ختم کرنے کے لئے آپ کی زبان پر حملہ آور ہوتا ہے وہ آپ کے شناخت کو آپ کے ادب کو کچلنے پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اس کے اس عمل کے خلاف آنے والے لوگوں کو وہ کسی بھی طرح نہیں بخشتا۔

  انھوں نے کہاہے کہ  آپ سب کو علم ہے کہ گزشتہ ایک عرصے سے بلوچ نسل کشی سمیت بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس مسئلے کے حل کے لئے اب تک ریاست و اس کے ماتحت اداروں کی جانب سے کسی قسم کی کوئی مثبت پیش رفت نظر میں نہیں آئی۔ ہم جس کلچر و ثقافت کی بات کرتے ہیں وہ ثقافت یہ ہے کہ ہماری تہذیب ہمارا معاشرہ ہماری قوم ہر وقت کے ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہوئی ہے، بلاشبہ ان لوگوں میں ہر طبقۂِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے جو اپنی تہذیب کے لئے اور اپنی بقاء کے لئے، اپنی زبان کے لئے اور ادب کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے اپنی بقاء کو محفوظ رکھنے کی کوششوں میں سرشار رہے۔ 

ہم اصل میں جس ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں وہ ثقافت یہ ہے کہ ہم نے ظلم کے خلاف کبھی بھی خود کو نا آشنا نہیں کیا بلکہ ہم عرصہ دراز سے لے کر عہدِ حاضر تک ظلم کے خلاف پابندِ سلاسل ہونے کے باوجود اور پیاروں کے لاپتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسخ شدہ لاشیں اٹھانے کے ساتھ ساتھ اجتماعی قبروں کو دیکھ کر بھی ہم ظلم کے خلاف صفِ اول میں کھڑے ہیں، ہماری ثقافت یہی ہے کہ ہم نے مزاحمت کی صورت میں جاری رکھی ہے، ہم نے ظلم و جبر کے خلاف گھٹنے نہیں ٹیکے، ہماری قوم کی ماؤں بہنوں نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جو کہ ہماری اصل تہذیب و تمدن ہے جو کہ ہمارے بقاء کی ضامن ہے۔

ترجمان نے  مزید کہاہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ آئے روز سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے اور لاپتہ افراد کو ہر نئے دن ریاست کی جانب سے اس کی نسل کشی کے طریقے میں جدت لائی جا رہی ہے اور ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے، کہیں پر فیک انکاؤنٹر کا نام دے کر تو کہیں پر دہشت گردی کا نام دے کر ان کے پیاروں کو ان کی مسخ شدہ نعشیں دی جارہی ہیں اور ان تمام حالات میں ریاست میں قانون و قانونی ادارے محض برائے نام رہ گئے ہیں اور وہ خود بلوچ نسل کشی میں سہولت کار بنے ہوئے ہیں  اور ان کی نسل کشی میں ایندھن کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ ہم ہر طرح کے قانونی عمل سے گزر کر گئے ہیں چاہے وہ پر امن پیدل مارچ ہو، چاہے وہ احتجاج ہوں، چاہے وہ دھرنے ہوں لیکن ہر وقت ہمیں ڈرا دھمکا کر یا ریاستی سازش کے تحت کمیشن کے نام پر بہلا پھسلا کر ہماری تحریکوں کو ختم کیا گیا یا ان کو سبوتاژ کیا گیا، لیکن اس کے باوجود بھی ہماری جدوجہد نہ رکی اور ہم آئے روز مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے اور ہمارے حوصلے بلند ہوتے گئے۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہےکہ جیسا کہ آپ تمام لوگوں کو علم ہے کہ ہماری مائیں بہنیں ہمیشہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے ہر محاذ پر جدوجہد کرتی آ رہی ہیں اور اس سال ہم بلوچ کلچرل ڈے کی مناسبت پر حقیقی طور پر بلوچ کی ثقافت کو روشناس کراتے ہوئے اس کے ثقافت کی اصل رنگ کو عیاں کرتے ہوئے جو کہ صرف اور صرف مزاحمت ہے، کسی بھی قوم کی شناخت اس قوم کی زبان و ادب و ثقافت ہوتی ہے لیکن زبان و ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے آپ کو ایک قوم و نسل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اسی بقاء کو آج خطرہ لاحق ہے اور بلوچ نسل کشی اور لاپتہ افراد کی صورت میں اس شناخت کو ختم کیا جا رہا ہے۔

2 مارچ بلوچ کلچرل ڈے کے دن بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) لاپتہ افراد کی فیملیز کے ساتھ جن کے پیارے مسخ شدہ لاش کئے گئے، جو کئی سالوں سے ٹارچر سیلوں میں قید ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیوں کی قربانیاں دی ہیں ان تمام لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) آرٹس کاؤنسل تا کراچی پریس کلب ایک ریلی منعقد کرے گی۔ یہ ہمارے بقاء کی جنگ ہے اور اگر آپ واقعی میں ایک بلوچ ہیں تو آئیے آپ کی اصل ثقافت کے رنگ کو آپ کو دکھایا جائے گا اور آپ کو اس بات کی یقین دہانی کروائی جائے گی کہ جس کلچر کو آپ کو دکھایا جاتا ہے وہ صرف اور صرف خود کو دھوکہ دینا ہے آپ کا اصل کلچر آپ کے مظلوم قوم کی مزاحمت ہے، ہم اسی مزاحمت کو 2 مارچ کو بلوچ کلچرل ڈے کی مناسبت سے بلوچ مسنگ پرسنز فیملیز کے ساتھ مزاحمت کا رنگ دے کر احتجاجی ریلی کی صورت میں منعقد کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔

ہم تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں سے اس دن بلوچ مسنگ پرسنز کے ساتھ ان کے آواز کو بلند کرنے کی اور شرکت کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post