جبکہ مظاہرین مختلف مقامات پر شاہراہوں کو بلاک کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان کا زمینی رابطہ سندھ پنجاب ، ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران سے کٹ گیا ہے ۔
دوسری جانب تازہ اطلاعات ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کا آغاز کیا تو درخواست گزار وکیل عطا اللہ کنڈی روسٹرم پر آگئے۔
عطا اللہ کنڈی کے مطابق سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ہمیں کہا: ’ان لوگوں کو کہیں بسیں باہر کھڑی ہیں، یہ واپس چلے جائیں۔ اس معاملے پر ہماری ان سے تین گھنٹے گفتگو ہوتی رہی۔ ایس ایس پی نے ہمیں کہا کہ ہمیں وزیراعظم کی ہدایت ہے کہ انہیں واپس بلوچستان بھیجیں۔‘
بقول عطا اللہ کنڈی: ’انہوں نے تمام لائٹیں بجھا دیں۔ پولیس نے زبردستی تمام خواتین کو بسوں میں سوار کروایا، پھر پتہ چلا کہ اسلام آباد میں کچھ طلبہ کو بھی زبردستی بسوں میں بیٹھا دیا گیا ہے۔ انہیں ہراساں کیا گیا، بعدازاں اسلام آباد کی طالبات کو رہا کر دیا گیا۔‘
وکیل درخواست گزار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’سارا معاملہ دیکھ کر ڈرائیوروں نے بسیں چلانے سے انکار کر دیا۔ اس دوران انسپیکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد تھانے پہنچے اور انہوں نے بھی کہا کہ کسی طرح انہیں یہاں سے بھیجیں۔ اس کے بعد پولیس نے تھانے کے دروازے بند کر دیے۔ صبح پانچ بجے پولیس نے بیان جاری کیا کہ ہم نے انہیں بحفاظت ان کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ ’پولیس کی جانب سے کون پیش ہوا ہے؟‘ پولیس انسپیکٹر کے سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق نے سینیئر افسر کے بجائے جونیئر پولیس افسر کے عدالت میں پیش ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’اب آئی جی یا سیکرٹری داخلہ کو بلوائیں؟‘ اس کے ساتھ ہی عدالت نے پولیس کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ’تمام لوگ کہاں ہیں، ان کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ آدھے گھنٹے میں عدالت کو رپورٹ جمع کروائیں۔‘
وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان عدالت عالیہ میں پیش ہوئے، جہاں چیف جسٹس عمر فاروق نے ان سے استفسار کیا کہ پولیس نے گرفتار مظاہرین کو کہاں بھیجا؟
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین کے خلاف بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اسلام آباد پولیس کیجانب سے تشدد اور سینکڑوں افراد کی گرفتاریوں کے خلاف کمیٹی نے گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔