بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5194 دن ہوگئے.
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں مند سے سیاسی اور سماجی کارکنان عبدالستار بلوچ، داد محمد بلوچ، محمد ابراہیم بلوچ اور دیگر نے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ کوئی بھی ذی شعور ہماری ناقص رائے سے انکار نہیں کر سکتا کہ جب سامراج بوکھلاہٹ خوف اور درندگی پر اترتا ہے تو وہ مظلوم قوم کی جدوجہد کی کامیابی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر دشمن ہمارے کسی بھی سیاسی جماعت یا ہر مکتبہ فکر پر حملہ نہیں کرتا تو میرے خیال میں یہ برا شگن ہے۔ کیونکہ دشمن کی ظلم بربریت سے جدجہد کو تقویت ملتی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ نوجوان اپنا حتمی فیصلہ کرکے محفلوں کی شور و غل ذہنی عیاشیوں سے نکل کر سرزمین کی اور لاپتہ افراد کی بازیابی اور ان ماو بہنوں کی سسکیوں کا سہارا بن کر میدان عمل میں اتر جائیں ورنہ کمزوری بزدلی نااہلی اور قوت ارادی کی کمی بلوچ تاریخ بلوچ قوم کی نام نشان صفحہ ہستی مٹا دیگی۔ ماہ اکتوبر میں بلوچ قوم کی مادر سرزمین نے دشمن کی گولیوں کا نشانہ بننے والے اپنے فرزندوں کو اپنے آہوش میں لےلیا سرزمین پر جان نچھاور کرنے فرزندوں کو ایک دوسرے سے گلے شکوے کرتے بھی دیکھا۔ اغیار قابضین اور دلالوں کو اپنی چھاتی پر رقص محفل سجاتے بھی برداشت کی۔
انھوں نے کہا ہے کہ آج بلوچوں کی قربانیوں کے تسلسل کی تاریخ تو جزبہ حریت سے سرشار کے متوالے اپنے خون اور اپنے نازک جسم پر سہے صعوبتوں اور دشمن کی وحشتناک اذیتوں سے لکھ رہے ہیں۔ کل اگر کوئی مورخ بلوچ قوم کی قربانیوں کو تاریخ کے پنو پر رقم کرے یا نہ کرے دنیا کی طاقتور میڈیا کی نشریات میں بلوچ قوم پر ڈھائے جانے والے مظالم جگہ حاصل کر پائیں۔ مگر آج بلوچ شہدا کے گرتے لہو کا ہر قطرہ ایک تاریخ رقم کررہا ہے۔ آج بلوچ جبری لاپتہ افراد کر نرم نازک جسم پر وحشتناک اذیتیں خود تاریخ ثبوت کے طور بیان کریں گی۔