بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جاری پمفلٹ میں لکھا ہے کہ ریاست کی جانب سے بلوچ قوم کی نسل کشی کیلئے مختلف پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔ بلوچ نوجوان، بزرگ، خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنا، ان کی جبری گمشدگیاں اور جعلی پولیس مقابلوں میں بلوچ قیدیوں کو قتل کرنا معمول بن چکا ہے۔ بلوچستان میں جاری اس ظلم کے خلاف بلوچ عوام نے کئی بار مزاحمتی تحریکیں چلائی ہیں ، لیکن ریاست اپنی پالیسیاں بدلنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔
بلوچ طلباء کو یونیورسٹیز کے ہاسٹلوں، بازاروں اور گھروں سے جبری گمشدہ کرنا عام ہوچکا ہے ۔ روزانہ بلوچستان بھر میں بلوچ نوجوانوں کو نشانے بنانے کی مختلف واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ایسے ہی ایک واقعہ میں کل عبدالرؤف بلوچ جو عطاء شاد ڈگری کالج کے طالبعلم تھے اور بولان اسکول میں بچوں کو پڑھاتے تھے، انہیں توہین مذہب کے نام پر دن دہاڑے لوگوں کے سامنے قتل کردیا گیا۔ ریاست نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں براہ راست اور اپنے ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے بلوچ استادوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن تربت میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ ریاست کے سرپرستی میں کام کرنے والے مذہبی انتہا پسند ملاؤں نے مذہب کے نام پر ایک استاد کو قتل کردیا ہے۔
بلوچ ایک سیکولر قوم ہے اور بلوچ قوم نے کبھی بھی مذہب کے نام پر لوگوں کا قتل نہیں کیا ہے، جب پورے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی عروج ہر تھی اُس وقت بھی بلوچستان میں مذہبی ہم آہنگی کے تحت مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے تھے۔ بلوچ قومی تحریک اور بلوچ سیاست کا راستہ روکنے کے لئے پاکستان مذہبی جتھوں کو بلوچ قوم کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ مذہبی انتہا پسند پنجگور میں بلوچ بچیوں کے اسکول جلا چکے ہیں اور بلوچستان میں مذہب کے نام پر بلوچ رسم و رواج کے خلاف محاذ کھول چکے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پمفلٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ بلوچ سماج میں مذہب کے نام پر بلوچ طلباء اور ایک معلم کا قتل ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہونا چاہیے اور ہمیں ایسی قوتوں کے خلاف اور بلوچ اقدار کے دفاع کے لئے سیاسی مزاحمت کو آغاز کرنا چاہیے۔ عبدالرؤف بلوچ کا قتل صرف ایک فرد کا قتل نہیں بلکہ بلوچ سماج کو مذہبی انتہا پسندی کے آگ میں جھونکنے کی کوشش ہے ۔
عبدالروُف بلوچ کے قتل پر خاموش رہنا بلوچ سماج کو تباہ کن راستے پر گامزن کرنے کے مترادف ہے جس کا راستہ ہر حال روکنا چاہیے۔ آج عبدالرؤف کو ریاست کی پشت پناہی میں موجود مذہبی انتہاء پسندوں نے نشانہ بنایا ہے، اگر ہم خاموش رہے تو کل دوسرے بلوچ نوجوان بھی اُن کا نشانہ بنیں گے، کیونکہ یہ پہلا واقعہ نہیں جب ریاستی اداروں نے مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا ہے، اس سے پہلے بھی شہید رسول جان جو ایک استاد تھے انہیں ان کے کمرے سے اٹھا کر لاپتہ کرکے شہید کر دیا گیا اور جعلی مقابلہ کا نام دیا گیا۔
سر زاہد آسکانی، پروفیسر صباء دشتیاری اور عبدالرازق بھی انہی قوتوں نے شہید کرکے مذہبی شدت پسندوں کا نام دیا، لیکن ہم سب کو بخوبی علم ہے کہ ایسے افراد کو قتل کرنے اور انہیں شہید کرنے کے پیچھے کون سے عناصر کارفرما ہیں۔ اگر ریاست سمجھتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندوں کے ذریعے بلوچ قوم کی نسل کشی کرکے بلوچ سماج کو انتہا پسندی کے زریعے یرغمال بنایا جائے گا تو یہ ریاست کی بھول ہے کیونکہ بلوچستان پاکستان کے دیگر علاقوں و افغانستان سے مختلف ہے یہاں بلوچ قوم ریاست کی مذہبی کارڈ کو کسی بھی صورت قبول نہیں کرے گی اور اس کے خلاف سخت مزاحمت کا راستہ اپنائے گی۔
پمفلٹ کے آخر میں لکھا ہے کہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ان پالیسیوں اور ان کے خطرناک نتائج کا تدراک کرتے ہوئے ان پالیسیوں کے خلاف مورچہ زن ہوکر سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنائیں کیونکہ خاموشی اور تماشائی بننے کی صورت میں ہم سب کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ یہ ریاستی پالیسیاں کسی ایک مخصوص علاقے کیلئے نہیں بلکہ تمام بلوچ علاقوں کیلئے ہیں اور ایسی پالیسیوں کے نقصانات کا سامنا ہم سب کو کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں سیاسی جدوجہد کا راستہ اپناتے ہوئے ایسے مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا چاہیے اور بلوچ سماج کو مذہبی انتہا پسندی سے محفوظ کرنا چاہیے۔