اختر ندیم عرف میجر گہرام کا بیان بدنیتی اور جھوٹ پر مبنی ہے۔بی این اے



بلوچ نیشنلیسٹ آرمی کے ترجمان مرید بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ بی این اے  وضاحت کرتی ہے کہ بی ایل ایف کے میجر گہرام عرف  اخترندیم  شہداد کا بیان  دارصل  اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے  کی ایک ناکام کو شش کر ہے

بی این اے  بلوچ قوم پر ایک بار پھر واضع کرنا چاتھی ہے اور  بلوچ قوم بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ بی این اے کو توڑ نے اور ان کے جنگی  سازوسامان پر قبصہ کرنے گلزارامام کو گرفتار کروانے بی این اے کے  سنگتوں کو اپنی تنظیموں میں بھرتی کرنے میں انہی لوگوں کا کردار رہا ہے اور اپنی گندی زبان سے گلزار امام اور سرفراز بنگلزی کے خلاف زہر اگل  کر اپنے کالے کرتوتوں کو چھپا کر بلوچ قوم سے جھوٹ بول رہے ہیں  اور یہ سب کچھ اختر ندیم  آواران گروپ کر رہا ہے۔

یہ کہانی تب شروع ہوئی ہے جب پہلی دفعہ 2005 میں ڈاکٹر اللہ نذر کراچی سے گرفتار ہوتا ہے ڈاکٹر اللہ نذر کراچی میں گلستان جوھر میں ڈاکٹر نسیم موجودہ چیرمین بی این ایم کے فلیٹ سے گرفتار کیا جاتا ہے اس وقت ڈاکٹر نسیم اور اختر ندیم دونوں کو اللہ نذر کے ساتھ گرفتار کیا جاتا ہے ڈاکٹر نسیم اور
اختر ندیم قریبی رشتے دار ہیں  گرفتاری کے بعد رہا ہو کر یہ لوگ واپس آتے ہیں تو اختر ندیم اور ڈاکٹر نسیم ڈاکٹراللہ نذر کو یہ بات  باور کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ ستار بلوچ جن کا تعلق مند سے ہے جو بی ایل ایف کا کمانڈر وہ ہماری گرفتاری میں ملوث ہے تاکہ مکران کے اس اہم کمانڈر اور ڈاکٹر اللہ نذر مین اختلافات پیدا کر کے ستار کو دور کیا جائے اور یہ لوگ کامیاب ہو گئے۔

اس کے بعد جب بی ایل ایف مشکے میں کیمپ قائم کرتا ہے تو بی ایل ایف کے بانی رہنما واحد کمبر چند ساتھیوں سمیت محاذ جنگ سے گرفتار ہوتے ہیں اور بی ایل ایف کی قیادت ڈاکٹر اللہ نذر اور ڈاکٹر خالد جو واحد کمبر کے بھائی ہیں ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے ڈاکٹر خالد اس دوران مشکے بی ایل ایف کے کیمپ سے مکران سفر پر روانہ ہوتا ہے جب اپنے علاقے پہنچتا ہے تو مشکے کے دوست کیمپ سے رابطہ کرتے ہیں پھر اسی رات ڈاکٹر
خالد کو شہد کیا جاتا ہے یوں اب بی ایل ایف مکمل ڈاکٹر اللہ نذر اور اختر ندیم کے گرفت میں آ جاتا ہے اس دن سے لے کر آج تک بی ایل ایف یرغمال ہے-

اس وقت اختر ندیم عرف شہداد سنگتوں کو حکم  دیتا ہے کہ تنظیم مالی مشکلات کا شکار ہے لہذا پروم باڈر پر کچھ منشیات کے لوڈ لوٹے جائین لہذا مقبول شمبے زئی اپنے علاقے میں اثر ورسوخ استعمال کرکہ چند منشیات کے لوڈ لوٹ کر بی ایل ایف کو دیتا ہے جس کو بی ایل ایف کے کمانڈر ٹھیکدار یونس پنجگور والے کے زمہ دیتا ہے کہ اس مال کا ایران میں کاروباری لوگوں کے ساتھ سودا لگایا جائے اس مال کو سودا کرنے کے بعد میں  پیسوں کے معاملے پر اختر ندیم اور مقبول شمبے زئی مین اختلافات  پیدا ہوتے ہیں اور مقبول پر دو تین قاتلانہ حملے ہوئے مگر وہ  بچ جاتا ہے بعد میں اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ سرنڈر ہو کر ان سے انتقام لینے کی کوشش کرتا ہے یہ سارا کارنامہ اسی مشکوک کردار اختر ندیم کا ہے.

اس دوران بی ایل ایف کے خلیل موسی اور اختر ندیم نظریاتی دوستوں کو شھید کروانے کا سلسلہ شروع کیا اس کا شکار ڈاکٹر قمبر مبارک خلیل سا چان استاد فضل حیدر چھہ ساتھیوں سمیت  نوکاپ دو ساتھیوں سمیت ایران میں مراد افغانستان میں سکا سکندر اور کئی دوسرے ساتھیوں جو سوال جواب کرتے اور ناجائز کاموں سے تنظیم کو روکتے ان سب کو ایک ایک کرکے شہید کیا گیا

اس کے علاوہ ضلع آواران کے صرف دو تحصیلوں میں مخبری کے نام پر ایک سو پچپن عام اور بے گناہ بلوچوں کو قتل کیا جن کی تفصیلات ہمارے تنظیم کے پاس موجود ہے بی ایل ایف ان کا جواب دیں؟

اخترندیم  عرف میجر گھرام خلیل عرف موسی بلوچ تحریک آزادی میں بھڑ کے  کھال  میں بھیڑیا کا کردار ادا کر رہے ہیں اور اخترندیم عرف میجر گہرام بہت چالاکی کے ساتھ  گزشتہ چار سالوں سے  ڈاکٹر اللہ نذار کو  بی ایل ایف  بی این ایم سمیت یرغمال بنایا ہوا ہے

بی ایل ایف کا حالیہ بیان سرفراز بنگلزئی کی کردار کشی کی کوشش انتہائی مزاہیکہ خیز ہے اختر ندیم ٹولہ احساس کمتری کا شکار ہے اختر ندیم کا اپنا بیٹا یورپ میں ہے جس کو ڈاکٹر نسیم نے کاغذی طور پر اپنا بیٹا ظاہر  کیا ہے
جبکہ سرفراز بنگلزئی شروع سے اس جہد مسلسل کا حصہ رہ چکا ہے اور اس کے دو اولاد بھی اس جنگ میں شھید ہوئے ہیں
ان جنگی منافع خوروں کا سرفراز بنگلزئی پر الزامات بے بنیاد ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں لہذا بلوچ قوم باریک بینی سے تمام معملات کا جائزہ لے

اور ان جنگی منافع خورو کے کالے کرتوتوں کو بلوچ قوم کے سامنے بے نقاب کرے جہنونے بلوچ آزادی کی قومی تحریک کو ایک کاروباری شکل دیکر اپنی زاتی مفادات کے لیئے استعمال کر رہے ہیں  اور جہاں تک بی ایل اے سے  یو  بی اے بنانے کی بات ہے تو یو بی اے بنانے میں بھی ان کا کردار رہا ہے جب یو بی اے بنا تو نواب خیر بخش مری نے رحمدل مری کے زریعہ بی ایل ایف کو پیغام بھیجا کہ آپ مشکے جاکر ڈاکٹراللہ نذر کو میرے طرف سے مکمل اختیار دیں کہ وہ یو بی اے اور بی ایل اے کا مسلہ حل کر کے ان کو ایک کرے مگر بی ایل ایف اور بی این ایم والے نہیں چھاتے تھے کہ یہ ایک ہوجائیں
اس کے بعد 2017 میں بی ایل اے کو مزید دو ٹکڑے کرنے میں بھی بی ایل ایف اور بی این ایم کا کلیدی کردار رہا
اور مزید اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیئے 2018 میں بی آر اے کو بھی دو دھڑوں میں تقسیم کرنے میں انہی لوگوں کا ہاتھ ہے۔

یہی تسلسل جاری رکھتے ہوئے 2021 میں بو بی اے کے اندر اختلافات  پیدا کرنے اور تقسیم کرنے میں بھی بی ایل ایف اور بی این ایم
کا ہاتھ رہا ہے

اسی طرح 2022 میں بھی گلزار امام کو گرفتار کروانے اور بی این اے کو تقسیم کرنے میں بھی یہی عناصر کار فر ما ہیں  اور یہی عمل اب بھی جاری ہے

اور اس کے علاوہ بی ایل ایف اور بی این ایم ایرانی حکومت کے ساتھہ ساز باز کرکے آئے روز بلوچ اور پشتون کاروباری افراد کے منشیات کو ایران و بلوچستان کے باڈری علاقوں میں لوٹ کر بلوچ اور پشتونوں کو پیسوں کی خاطر قتل کررہا ہے

بی ایل ایف اور بی این ایم نے ایرانی حکومت کو بلوچ سرمچاروں کا بائیومیٹرک اور فنگر پرنٹ بھی فراہم کررہا ہے جو کہ ایک غیر زمہ دارانہ عمل ہے

اور انہی تنظیموں نے بلوچ آزادی کے نام پر اپنے اپنے نیوز چینلز بھی بنائے ہیں جیسا کہ سنگر  زرمبش  بلوچستان پوسٹ جو کہ یک طرفہ موقف بیان کرتے ہیں ان میں پاکستانی میڈا میں کوئی فرق نہیں ہے جو کہ صحافت کے نام پر ایک دھبہ ہے

اسی طرح کچھ گلوکار بھی انہی کے اشارو پر گاتے ہیں جو اپنے فن کے ساتھہ ناانصافی کر رہے ہیں

بی ایل ایف کا کہنا ہے کہ پھچلے ادوار میں بی ایل اے سے جوڑے افراد بی ایل ایف کے خلاف جھوٹے الزامات اور کردار کشی کا ایک زیریلا مہم چلا رہے تھے ہم بی ایل ایف سے پوچھنا چھاتے ہیں کہ  اج پھر وہی لوگ تمہاری لابی کا حصہ کیسے بنے کیا یہ کھلا تضاد نہیں کیا یہ جھوٹ نہیں

جہاں تک بی ایل ایف کا بی این اے پر الزام تراشی ہے کہ نئے بھرتیوں کی وجہ سے ان کے ساتھی ڈرون حملوں میں شھید ہوئے ہیں
ہم بی ایل ایف سے پوچھنا چھاتے ہے کہ روا سال میں بی ایل ایف کے 35 ساتھی ڈرون اور دیگر حملوں میں شھید ہوئے ہیں کیا آپ نے بھی نئی بھرتی کی ہے اس کا زمہ دار کون ہے

بی این اے دیگر آزادی پسند تنظیموں کی موجودگی میں آج بھی بات چیت کرنے کے لئیے تیار ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post