سرفراز بنگلزئی عرف مرید کا بیان انتہائی غیر ذمہدارانہ ہے۔ بی ایل ایف



کوئٹہ  بلوچستان لبریشن فرنٹ  بی ایل ایف کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ  دلاور ولد واحد بخش کے قتل کو لے کر سرفراز بنگلزئی کا بی ایل ایف کے خلاف بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔ معلوم نہیں سرفراز بنگلزئی نادانی میں اپنے ساتھی گلزار امام کی طرح دشمن کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر بلوچ قومی تحریک آزادی، بالخصوص بی ایل ایف اور ”براس“ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے یا پھر فرسٹریشن میں اپنی ناکامی کا ملبہ دانستہ طور پر  دوسروں پر گرانا چاہتا ہے۔


انھوں نے کہاہے کہ  بی این اے اتحادیوں کی سازش سے نہیں، بلکہ اپنے قیادت کی کوتاہ بینی اور بچگانہ حرکتوں کے باعث دو سال کے اندر اندر اپنے انجام کو پہنچا۔ سرفراز کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے خلاف سازش کرنے کیلئے خود کافی ہے۔


 ترجمان نے کہاہے کہ سرفراز کا بی ایل ایف پر دوسرے تنظیموں کے ساتھیوں کو لالچ دے کر توڑنے کا الزام سراسر  غلط اور گمراہ کُن ہے۔ سرمچاروں کے جنگی جذبہ اور ان کے پاس جنگی وسائل کی کمی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان کو وسائل کا لالچ دے کر تنظیموں سے توڑنا سرفراز کا اپنا طریقہ رہا ہے۔ آج جس انور پر الزامات لگاکر سرفراز  بنگلزئی بی ایل ایف کے خلاف بیان بازی کر رہا ہے، اسی انور کولواہی کو 2018/19 میں سرفراز بنگلزئی نے وسائل کا لالچ دے کر بی ایل ایف سے توڑا اور یو بی اے میں شامل کروایا تھا۔ انور اپنے جن ساتھیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ بی ایل ایف چھوڑ کر سرفراز بگلزئی کے ساتھ شامل ہوئے تھے، ان کے پاس بی ایل ایف کی دی ہوئی جو جنگی سہولیات اور سامان تھے، بی ایل ایف وہ سہولیات اور سامان واپس لینے کا حق رکھتا تھا لیکن بی ایل ایف نے اپنا وہ حق استعمال نہیں کیا۔ اگر بی ایل ایف کی قیادت تنگ نظر اور بدنیت ہوتی تو اسی وقت ان سے اپنا اسلحہ و دیگر جنگی سہولیات و سامان واپس لیتا۔ مگر بی ایل ایف کی قیادت نے دور اندشی کا مظارہ کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا کیونکہ ایسی صورت میں وہ غیر مسلح ہوتے اور دشمن کیلئے آسان ہدف بن جاتے۔ 


انھوں نے کہاہے کہ  بزرگ بلوچ رہنما سردار خیر بخش مری کی وفات کے بعد جب سرفراز جیسے بعض نادان افراد نے نام نہاد مڈی کی ملکیت کے نام پر بی ایل اے اور یو بی اے کے درمیان مسلح تصادم اور برادرکشی کا ماحول پیدا کیا تو بی ایل ایف نے کچھ دوسرے بلوچ دوستوں کے ساتھ مل کر دونوں تنظیموں کے درمیان مسلح تصادم کو روکنے کیلئے کوششیں کیں۔ حالانکہ اس وقت بی ایل اے سے جُڑے بعض عناصر سوشل میڈیا میں بی ایل ایف کے خلاف بڑے پیمانے پر جھوٹے الزامات اور کردار کشی کا ایک زہریلا مہم چلا رہے تھے۔ بی ایل ایف کی قیادت نے اُن تمام تلخیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں تنظیموں کے درمیان صلح کرانے کی کوششیں جاری رکھیں اور بالآخر 2018 میں دونوں تنظیموں کے درمیان خیر کا معاہدہ ہوا۔


انھوں نے کہاہے کہ گلزار اور سرفراز کی نادانیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی این اے کی تشکیل کو ایک سال نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے سرمچاری کے خواہش کا اظہار کرنے والے افراد کے بارے میں تحقیقات اور تسلی بخش معلومات حاصل کرنے کے بجائے عام بھرتی کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا کہ ویسی بھرتی تو لیویز فورس میں بھی نہیں کی جاتی ہے۔ ان کی اسی عام بھرتی کے عمل سے دشمن نے فائدہ اٹھا کر بڑی تعداد میں اپنے ایجنٹ ان کے صفوں میں داخل کئے۔ اسی وجہ سے  بی این اے کے کیمپ ڈرون حملوں میں ہدف بنائے گئے جن کے نتیجے میں درجنوں سرمچار شہید ہوئے اور گلزار امام گرفتار ہوا۔

 

انھوں نے کہاہے کہ جہاں تک بی ایل ایف پر قومی تحریک آزادی کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے تو سرفراز سے سوال ہے کہ 29 مئی 2015 کو  کھڈکوچہ میں مسافر کوچ سے 22 بے گناہ پشتون مسافروں کو یو بی اے کے اس وقت کے کمانڈر سرفراز عرف مُرید نے قتل کرکے قومی تحریک کی کونسی خدمت کیا تھا؟ شاید مرید کی انہی حرکتوں سے تنگ آکر یو بی اے نے اسے نکالا تھا۔ سرفراز بنگلزئی اور اس کے قریبی ساتھیوں کو مایوسی سے بچانے کیلئے ”براس“نے انھیں سہارا دیا تاکہ دشمن کا مخالف کوئی بھی مورچہ نہ گر پائے۔ مُرید میں تھوڑی بہت سمجھداری اور قائدانہ صلاحیت ہوتی تو گلزار امام کی گرفتاری کے ساتھ ہی بی این اے کا شیرازہ یوں نہیں بکھرتا۔ اب معلوم نہیں کہ بی این اے کا کوئی وجود ہے یا نہیں ہے۔ اگر ہے تو کیا بی این اے وہ افراد ہیں جو بی این اے کے نام پر چھوٹی موٹی کاروائیاں کرتے ہیں یا پھر سرفراز عرف  مرید بی این اے ہے جو محض تردیدی بیانات اور تحریک آزادی سے جُڑی ذمہ دار تنظمیوں اور افراد پر کیچڑ اُچھالنے کا کام کرتا رہتا ہے؟ 


ترجمان نے کہاہے کہ ہم بلوچ قوم کے علم میں یہ بات بھی لانا چاہتے ہیں کہ گلزار امام اور سرفراز بنگلزئی کے ساتھ اکثریت ان جنگجوؤں کی تھی جو دوسرے بلوچ مسلح تنظیموں کو چھوڑ کر ان کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ اسلئے جب گلزار گرفتار ہوا تو وہ افراد جو بی این اے بننے سے پہلے گلزار امام کے ساتھ تھے سرفراز بنگلزئی کے اپنے اسی منفی رویہ اور قائدانہ صلاحیتوں کی فقدان کے باعث ان کا اعتماد حاصل نہیں کرپایا۔ اسطرح گلزار امام کے ساتھیوں کی اکثریت نے بی ایل اے ( جیئند) میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو سرفراز بنگلزئی نے ان کے اسلحہ جات و دیگر جنگی سامان و سہولیات پر حق ملکیت کا تنازعہ کھڑا کرکے انھیں غیر مسلح کرنے پر اصرار کرنے لگا اور اس بات پر بی ایل اے کے ساتھ الجھ گیا۔ بی ایل ایف کی قیادت نے ایک دفعہ پھر درمیان میں آکر نہ صرف یہ تنازع خوش اسلوبی سے حل کروایا بلکہ سرفراز کی فرسٹریشن اور تنہا ہوتی ہوئی حالت کو دیکھ کر ایک معتبر شخصیت کے ذریعے اسے بی ایل ایف جیسی بڑی قومی پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھنے کی پیشکش کردی۔ مگر سرفراز بنگلزئی نے گدان ٹی وی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں نہ صرف بی ایل ایف کے اس مخلصانہ پیشکش کو منفی رنگ میں پیش کیا بلکہ بی ایل اے جیئند پر بھی الزامات کی بوچھاڑ کردی۔


ا نھوں نے کہاہے کہ جہاں تک رواں بلوچ قومی تحریک آزادی میں بی ایل ایف کی پالیسی، کردار اور قیادت کی بات ہے تو ہم یہ بات بلامبالغہ کہتے ہیں کہ آج تحریک آزادی کی مسلح محاذ کے سرگرمیوں میں دو دہائیوں سےتسلسل بی ایل ایف کی وجود کے باعث ہے۔ بی ایل ایف ہمیشہ سے تحریک آزادی سے جُڑے قوتوں کو متحد کرنے، ان کے مابین اشتراک عمل کیلئے سازگار ماحول فروغ دینے اور بدگمانیوں و فاصلوں کو کم و ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہے۔ آخر میں ہم سرفراز بنگلزئی کو مشورہ دیتے ہیں کہ بی ایل ایف فوبیا سے باہر نکلے، بی ایل ایف اور تحریک آزادی کی دوسری قوتوں کے خلاف الزام تراشی کے بجائے اپنا توجہ دشمن کے خلاف پر مرکوز کرے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post