تربت: انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان تربت مکران کے زیراہتمام 30 اگست کو جبری گمشدگیوں کے عالمی دن کی مناسبت سے ایچ آر سی پی کے ریجنل آفس میں پروگرام منعقد کیا گیا، جبکہ ایچ آر سی پی کی طرف سے پروگرام کے بعد پرامن مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں شرکا نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
تقریب کے پہلے حصے میں پروفیسر غنی پرواز و دیگر شرکاء نے گفتگو کرتے ہوئے جبری گمشدگی کو انسانی حقوق کی سنگین پامالی اور جبر کی بدترین صورت قرار دیا اور بلوچوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے چند ایک ممالک کے سوا جہاں پر مخالف آوازوں کو خاموش رکھنے کے لیے دیگر حربے استعمال کرنے کے ساتھ جبری گمشدگی کو بطور ایک حربہ استعمال کیا جاتا ہے باقی مہذب ممالک میں یہ عمل غیر قانونی ہے، پاکستان دنیا کے ایسے ممالک میں شامل ہے جو جبری گمشدگی کو بطور ہتھیار مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں اس سلسلے میں سب سے زیادہ یہ عمل بلوچ اور سندھیوں کے خلاف اور اب پشتونوں کو بھی جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے۔
تقریب میں آٹھ مختلف قرار داد پیش کی گئیں جو متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔
انڈیا چاند کے ساؤتھ پول تک پہنچ چکا ہے جہاں اس سے پہلے کوئی ملک نہ جا سکا ہے۔
بہت سے مغربی مشرقی اور مسلم ممالک اپنے شہریوں کو طرح طرح کے حقوق اور سہولتیں دے رہے ہیں مگر اس کے برخلاف پاکستان کے متعلقہ حکام اپنے ہی شہریوں کو ماورائے آئین و عدالت اغوا کر کے جبری طور پر لاپتا کرنے اور ان میں سے بعض کو قتل کر کے لاشیں مسخ کرنے کے بعد ویرانوں میں پھینک دینے میں مصروف عمل ہیں، لاپتہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ یہ اجلاس پاکستان کے متعلقہ حکام کے مذکورہ منفی رویے کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور اس منفی رویے کو چھوڑ کر مثبت رویہ اختیار کرنے کا پرزور مطالبہ کرتا ہے ۔
2001 سے لے کر اب تک ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار بلوچوں کو ماورائے آئین و عدالت اغوا کرکے لاپتہ کیا جا چکا ہے یہ اجلاس پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ مذکورہ تمام لاپتہ افراد کو فوری طور پر بازیاب اور رہا کیا جائے اور آئندہ اغوا اور لاپتہ کرنے کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے۔
ایک جائزے کے مطابق 2001 سے لیکر اب تک 20 ہزار سے زیادہ بلوچوں کو ماورائے آئین و عدالت قتل کر کے لاشیں مسخ کرکے ویرانوں میں پھینکی جا چکی ہیں یہ اجلاس پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ ماورا آئین و عدالت قتل کرنے اور لاشیں مسخ کرکے ویرانوں میں پھینکنے کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے۔
رؤف برکت کو سفاکانہ طور پر قتل کرنے کا عمل قابل مذمت ہے ان کے قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کر کے سزائیں دی جائے۔
سمیر برکت اور ہانی گل کو سفاکانہ طور پر قتل کرنے کا عمل بھی قابل مذمت ہے ان کے قاتلوں کو بھی جلد از جلد گرفتار کر کے سزائیں دی جائے۔
ڈاکٹر دین محمد، ذاکر مجید ،دادشاہ، رفیق اومان، رشید حمید، عادل عصاء، علی اصغر بنگلزئی اور زرینہ مری سمیت تمام لاپتہ بلوچوں کو فوری طور پر بازیاب اور رہا کیا جائے۔
موجودہ اجلاس کے نزدیک میر عیسا کورجوہ، تحصیل تمپ میں محمد حیات کے گھر میں بعض مسلحہ افراد کے گھس کر فائرنگ کرنے اور انکی بیٹی ذلیہ کو شدید زخمی کرنے کا عمل قابل مذمت ہے اور زمہ داران کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔
پاکستان بھر میں ہزاروں غیر بلوچ افراد کو بھی ماورائے آئین و عدالت اغوا کرکے جبری طور پر لاپتہ کیا جا چکا ہے یہ اجلاس اس عمل کی بھی پرزور مذمت کرتا ہے اور ان تمام لاپتہ افراد کی بازیابی اور رہائی کا بھی مطالبہ کرتا ہے ۔