بلوچ مسخ شدہ نعشوں کی برآمدگی اور گمشدگیوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے،ماما قدیر بلوچ



بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5078 دن ہوگئے.


 اظہار یکجہتی کرنے والوں میں کوئٹہ سے نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما زبیر بلوچ، محمد ایوب بلوچ عبداللہ بلوچ اور دیگر نے اظہار یکجہتی کی ۔ 


اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے اظہار یکجہتی کرنے والوں سے  کہا کہ بلوچ قوم جہاں ریاستی بربریت اور تشدد کا شکار ہے وہاں آئے روز انکی مسخ شدہ نعشوں کی برآمدگی اور گمشدگیوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور مقبوضہ بلوچستان کی زمینی صورت حال کسی جبر سے کم نہیں۔ جہاں ظلم کی بے رحمیاں سورج کی تپش سے بھی زیادہ گرماتی ہوئی فرزندان  وطن کی لہو کو خاک وطن میں جذب کرکے لاپتہ افراد کی بازیابی کی کرنوں کا باعث بن رہی ہے۔


 ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہماری ماوں بہنوں کی عزت محفوظ نہیں پاکستانی جبر ظلم نے پرامن جدجہد کو آنے والوں نسلوں تک خود منتقل کر دیا ہے۔ آپریشن کے سلسلے اپنی تپش کے ساتھ پورے بلوچستان میں جاری ہے پہاڑیں بھی پاکستانی بموں کو اپنی سینہ میں سہتے رہے ہیں۔ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین بھی سالوں سے پریس کلبوں کے دروازوں کو دستک دے رہے ہیں ، مگر یہاں تو سب گونگے اندھے ہیں۔ جبری اغوا ہونے والے فرزندون کے کئی رشتہ داروں نے میڈیا کے سامنے اپنی فریاد چیخ چیخ کر رکھی ہے  مگر سننے والا  کوئی نہیں ہے ۔  ریاستی جبر ظلم کسی نہ کسی صورت بلوچون پر اور اس کی باسیوں پر جاری ہے ۔


انھوں نے کہا کہ ریاستی مارو اور پھینکو پالیسی کے تحت نہتے سیاسی کارکنان ادیبوں شاعروں وکلا ڈاکٹرز کا  تعلق کسی  فکری اور نظریے سے رہا ہے انہیں فوج نیم فوجی ادارہ ایف سی نے جبری اغوا لاپتہ کرنے کے بعد سالوں انہیں ازیت دینے کے بعد انکی گولیوں سے چھلنی نعشیں پہاڑوں ویرانوں میں پھینکی ہیں اور کئی دفعہ تو پانچ پانچ جبری اغوا کئے گئے بلوچوں کی نعشیں بھی لیویز پولیس نے برآمد کی ہیں۔ جن کی تعداد کئی ہزاروں ہے ۔ 


انھوں نے کہاہے کہ آج کل نئی حکمت عملی کے تحت بلوچ نوجوان کو مقبوضہ بلوچستان کے کئی علاقوں سے جبری اغوا کیا جاتا ہے اور ان کی نعشیں ویرانوں میں مل رہی ہیں۔ لیکن اس شمار میں وہ لاپتہ کئے گئے افراد شامل نہیں جنہیں شہید کرنے کے بعد دفن کردیا گیا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post