بوسان : بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم جنوبی کوریا چیپٹر نے 27 مارچ یوم سیاہ کے موقع پر بوسان شہر کے بوسان سٹیشن پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔احتجاج کا مقصد بلوچستان پر قبضے کے دن بلوچ قومی جذبات کو دنیا کو سامنے اجاگر کرنا تھا کہ کس طرح اس دن بلوچ قوم پاکستانی فوج کے ہاتھوں اپنی آزادی سے محروم ہوئے۔
مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ،جن پر پاکستان کی جارحیت اور بلوچ نسل کشی کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے سروں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر بلوچ سرزمین پر پاکستانی قبضے کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار بھی کیا۔ مظاہرین نے مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان کے جاری مظالم پر تقاریر کیں۔
احتجاج کے دوران پاکستانی مظالم سے متعلق سینکڑوں پمفلٹس بھی تقسیم کئے گئے۔
مظاہرین میں 13 سالہ بختاور بلوچ نے کورین زبان میں تقریر کی۔
انھوں نے کہا کہ 1948 سے اب تک فوجی جارحیت میں ہزاروں بلوچ قتل اور اغوا کئے گئے۔ ہم بلوچوں نے کبھی بھی پاکستانی غلامی قبول نہیں کی بلکہ اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہمارے گھروں کو جلایا جا رہا ہے، مویشی اور دیگر اثاثے روزانہ فوجی کارروائیوں میں لوٹے جا رہے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ 27 مارچ 1948 کو ایک نوزائیدہ ریاست پاکستان نے خود مختار بلوچ ریاست پر حملہ کر کے بندوق کی نوک پر جبری الحاق کر لیا۔ 1948 میں بلوچستان پر قبضے کے بعد سے بلوچ عوام 27 مارچ کو یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں۔ جبری قبضے کے دن سے بلوچ مزاحمتی تحریک شروع ہوئی اور اس کی قیادت آغا عبدالکریم خان نے کی جو اس وقت ریاست مکران کے گورنر اور خان آف بلوچ (بلوچستان) میر احمد یار خان کے چھوٹے بھائی تھے۔‘‘
انھوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ 27 مارچ کو بلوچ قوم یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ آزادی کی حامی سیاسی جماعتیں بلوچستان میں پاکستانی مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے بلوچستان اور دنیا بھر میں احتجاج ، آگاہی مہم اور سیمینارز کا اہتمام کرتی ہیں۔ وہ احتجاج کرتے ہیں، اپنے گھروں پر سیاہ جھنڈے لہراتے ہیں اور قبضے کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لیے ہاتھ پر سیاہ پٹیاں باندھتے ہیں۔‘‘
بختاور بلوچ نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا ہم بین الاقوامی برادری ، جنوبی کوریا کی حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی کو روکنے میں ہماری مدد کریں۔