کراچی : بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4936 دن ہوگئے۔



 آج اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے چیرمین جہانگیر بلوچ، سینئر وائس چیرمین محمد اشرف بلوچ، اور کابینہ کے دیگر رہنما بھی شامل تھے ۔


اس موقع پر اظہار یکجہتی کرنے والوں سے  گفتگو کرتے ہونے وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ماہِ جنوری میں بھی مقبوضہ بلوچستان ریاستی عتاب کا شکار رہا ، ویسے تو کوئی ایسا دن نہیں جب روزانہ کوئی بری خبر نہ آیا ہو ، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ریاست نے اپنے ہاتھ بلوچ خون رنگنے سے روک لیا ہو ، پورے مہینے میں اگر کس جگہ سے بلوچ فرزند کو اغواء کیا گیا تو دوسری جگہ مسخ شدہ لاش ملنے کی خبر گردش کرتی رہی ہر صبح اٹھتے ہی دن کی ابتدا اور اختتام ریاستی مظالم سے ہوتا ہے۔


 انھوں نے کہاہے کہ ریاست نے نئی حکمت عملی لاتے ہوئے ایک تو خواتین کو اغواء کرنا شروع کر دیا ہے تو دوسری طرف مسخ شدہ نعشیں مختلف علاقوں کے پہاڑیوں میں پھینکنا شروع کیا ہے،اس طرح  پاکستان بلوچ پر امن جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کے لئے اپنی کاروائیوں میں انتہائی شدت لا رہا ہے جس کا تدارک کرنا اقوام متحدہ کی ذمہداری ہے۔


 انہوں نے مزید کہا کہ تمام جبری لاپتہ اسیران کی عدم بازیابی پر اقوام متحدہ کی خاموشی سوالیہ نشان ہے ؟ ہماری پر امن  جدوجہد انکو متوجہ کرنے کے لئے ہے ہمارا مقصد بلوچ لاپتہ افراد کی باحفاظت واپسی اور عالمی دنیا کے سامنے پاکستان افواج کے مظالم کو اجاگر کرنا اور انکے ضمیروں کو جھنجھوڑنا ہے کہ وہ بلوچ قوم کی نسل کشی کا نوٹس لیں ۔


انھوں نے کہاکہ آج بھی 55ہزار بلوچ پاکستانی خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر بدترین تشدد کے ذریعے انہیں شہید کر کے مسخ شدہ نعشیں پھینکی جا رہی ہیں ، مگر میڈیا کے کان بہرے ہوگئے ہیں، اور وہ استعمار کی آواز بن چکی ہے ، وہ حاکم کی آواز ہے ، غاصب کی آواز ہے ، قابض کی آواز ہے ان سے توقع نہیں رکھنا چاہیے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post