شال :بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے 4875 دن ہو گئے ہیں
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں مستونگ سے سیاسی و سماجی کارکنان محمد عظیم بلوچ نور محمد بلوچ دستگیر بلوچ مرد و ِخواتین نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ سالوں سے بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی کی شدت میں ریاست روز اضافہ کر رہا ہے۔ بلوچوں کو جبری لاپتہ کر کے انہیں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے جیسے گھناؤنے اور غیر انسانی عوامل جاری تھے کہ ریاست پاکستان نے ان بلوچ نسل کش پالیسیوں کے شدت میں اضافہ کرتے ہوئے اب عام بلوچ شہریوں کے گھروں پر بمباری کرنے چادر و چار دیواری کی پامالی کر کے انہیں لوٹنے اور بعدازاں جلانے کا نیا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔
انھوں نے کہاکہ ریاست کی طرف سے بلوچ نسل کشی کی ایک تازہ مثال ہمیں اطلاع ملی کہ کوہلو کاہان آپریشن میں نو افراد کر دیے گئے ہیں نعشوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے ، جبکہ ہسپتال پر فورسزز کا سخت پہرا ہے، انہیں دیکھنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ، نعشوں کی بدبو علاقے میں پھیل چکی ہے۔ ہوسکتا وہ لاپتہ افراد کی نہ ہوں اس وقت بلوچستان میں ایک سنگین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے ۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاستی فورسزز کی گذشتہ دو مہینے میں مزید شدت سے جاری کاروائیاں اس امکان کو مستحکم کرتی ہیں کہ اب ریاست پاکستان بلوچستان میں کسی عالمی قانون کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کر چکی ہے، اور بلوچ پرامن جدوجہد کو کچلنے کیلیے اپنے پیش رو قابضوں کی طرح سروں کا مینا ر کھڑا کرنے سے بھی باز نہیں آئے گا ۔
انھوں نے کہاکہ آوارن جھاو میں گذشتہ تقریبا پانچ دنوں سے بلوچوں کو شہید کر کے نا صرف درجنوں بلوچوں کو جبری اغوا کر کے اپنے عقوبت خانوں میں منتقل کر چکے ہیں ، بلکہ آبادیوں کے آبادی جلا کر خاکستر کر چکے ہیں۔
ماما نے کہاکہ مشکے میں بھی آئے روز کے فضائی اور زمینی اور آپریشنوں میں لوگوں کو شدید جانی مالی نقصانات سے دوچار کردیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ گزشتہ ایک ہفتہ سے قلات کے ملحقہ دیہی علاقوں کو اپنے فوج کے ذریعے گھیرے میں لیکر عام آبادیوں کا راشن پانی کے سارے ذرائع بند کر چکے ہیں۔